فلسطین۔ نسل کشی کی تاریخ رقم ہو رہی ہے

تحریر: مولانا محمد یونس الحسینی
دنیا کی تاریخ ظلم و ستم کی بے شمار داستانوں سے بھری پڑی ہے لیکن بعض ظلم ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں، انسانیت کو جھنجھوڑ دیتے ہیں اور ضمیر کو جگا دیتے ہیں۔ آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ایسا سفاک منصوبہ ہے جس کا مقصد ایک پوری قوم کو مٹا دینا ہے۔ فلسطین ایک تاریخی سرزمین ہے جو مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا گہوارہ رہی ہے مگر آج اس سرزمین پر جو ظلم و ستم روا رکھا جا رہا ہے، وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔

فلسطینیوں کو صرف ان کی زمین سے محروم نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کی شناخت، ان کی تاریخ، ان کی تہذیب اور ان کے مستقبل سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ ان پر ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں، ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے، ان کے خوابوں کو روندا جارہاہے اور یہ سب کچھ 21ویں صدی کی ”مہذب” دنیا کے سامنے ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی نے نہ صرف ان کے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا بلکہ ان کے خواب، نسلیں اور امن کی امیدیں بھی خاکستر کر دی ہیں۔ فلسطین، جو کبھی امن، محبت اور ثقافتوں کے سنگم کی سرزمین تھی، 20ویں صدی کے اوائل سے خون آلود داستانوں کا مرکز بنتی چلی آ رہی ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی ابتدا 1948ء میں اُس وقت ہوئی جب ایک منظم منصوبے کے تحت صہیونی ریاست قائم کی گئی، جسے اہلِ فلسطین نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس وقت لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا، ان کے گاؤں تباہ کیے گئے اور ہزاروں معصوم جانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یہ صرف ایک آغاز تھاجس کے بعد ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ فرعون نے ظلم کیا، نمرود نے آسمان کو چیلنج کیا، ہلاکو نے بغداد جلایا، ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو نیست و نابود کیا مگر آج کے ”مہذب دور” میں جو ہو رہا ہے، وہ سربیت کی حدیں پار کر چکا ہے۔ فلسطین کے ملبوں تلے، روہنگیا کے جنگلات میں، کشمیر کی وادیوں میں، چین کے حراستی کیمپوں میں اور دنیا کے مختلف گوشوں میں معصوم انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور دنیا کے ضمیر پر سکوت طاری ہے۔ آج اگر ہم فلسطین کی سرزمین پر نظر ڈالیںتو وہاں ظلم کی وہ داستان ہے جو قلم میں سموئی نہیں جا سکتی۔ بچوں کو ماں کی گود میں، مریضوں کو اسپتال کے بستروں پراور بزرگوں کو عبادت گاہوں میں مارا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف انسانی اقدار کا قتل ہے بلکہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ بھی ہے۔ آج کے جدید اور مہذب دور میںجب دنیا حقوقِ انسانی کی دعویدار ہے، جب اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیںاور عالمی طاقتیں امن کی دہائیاں دیتی ہیں، اُس دور میں بے گناہ انسانوں کو صرف اُن کی نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے۔ اُن کے گھروں کو کھنڈر بنایا جا رہا ہے، بچوں کے چہرے مٹی میں دفن ہو رہے ہیں، ماؤں کی آہیں آسمان کو لرزا رہی ہیں۔

آج اگر کوئی تصویر انسانیت کی بے حسی کی نمائندگی کرتی ہے تو وہ فلسطین کے گلی کوچے ہیں جہاں ہر قدم پر لاشیں، ہر دیوار پر خون کے دھبے اور ہر آنکھ میں بے بسی کی تصویر موجود ہے۔ فلسطین میں جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ نسل کشی کی بدترین مثال ہیں۔ یہ ایک ایسی درندگی ہے جو انسانیت کو شرما دے اور ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ کبھی دن دہاڑے گھروں پر بم برسائے جا رہے ہیں توکبھی شب خون مارا جا رہا ہے، بچوں کو ماں کی گود میں قتل کیا جا رہا ہے، اسکولوں پر بمباری، اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر، مسجدیں خاکستراور جنازے بھی محفوظ نہیں۔ کون سا بین الاقوامی قانون ہے جو اس درندگی کی اجازت دیتا ہے؟ کون سا انسانی حق ہے جو فلسطینیوں کو میسر ہے؟وہ مائیں جو اپنے بچوں کے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتی تھیں، اب ان کی لاشوں کو کفن پہنا رہی ہیں۔ وہ باپ جو اپنے خاندان کو محفوظ دیکھنا چاہتے تھے، خود اپنی قبریں کھود رہے ہیں۔ معصوم چہروں پر بموں کی خاک ہے، آنکھوں میں خوف ہے اور دل میں ایک ہی سوال: ہم نے کیا گناہ کیا؟ فلسطین کا بچہ آج کاندھے پر بندوق نہیں، جنازہ اُٹھائے کھڑا ہے۔ ماں آج لوری نہیں سُنا رہی، شہادت کی دعائیں دے رہی ہے۔ باپ آج روزی کے لیے نہیں، بیٹے کی لاش اُٹھانے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ صرف اتفاق ہے؟ ہرگز نہیں! یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جانے والی نسل کشی ہے۔ یہ ظلم وسربیت کی انتہااور انسانیت کے جنازے کا منظر ہے۔ آج دنیا کا دجالی میڈیا جھوٹ کے تانے بانے بُن رہا ہے، سچ کو دبا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں نسل کشی کی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور دنیا انسانیت کی موت کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی پالیسی ایک نسل کشی کے مترادف ہے۔

یہ وہ نسل کشی ہے جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں معذور ہو چکے ہیںاور بے شمار لوگ بے آسرا، بے گھراور بے بس ہو چکے ہیں۔ معصوم بچوں کی لاشیں، ماں کی ممتا کا کرب، باپ کی بے بسی اور اجڑی ہوئی گودیں دنیا کی خاموشی پر سوالیہ نشان بن چکی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ارضِ مقدس کو خون میں نہلانے والے کی بمباری کو دفاع نام دیاجارہاہے۔ یہ کیسی دنیا ہے جہاں قاتل کو تحفظ حاصل ہے اور مظلوم کو دہشت گرد کہا جاتا ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ بمباری کرنے والے کو دفاع کا حق دیا جاتا ہے اور پتھر پھینکنے والے کو دہشت گرد کہا جاتا ہے؟ جہاں ایک مخصوص قوم کا قتل عام جاری ہے، جہاں اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں۔ کیا یہ وہی مہذب دنیا ہے جو انسانی حقوق کی دعویدار ہے؟ اگر ہولوکاسٹ کو یاد رکھا جا سکتا ہے تو غزہ کی بربادی کو کیوں فراموش کیا جا رہا ہے؟ اگر یوکرین کے لیے آوازیں بلند کی جا سکتی ہیں تو فلسطین کے بچوں کے معاملے میں لب کیوں سی لیے گئے ہیں؟آج فلسطین کے خون آلوددرودیوار دنیا کے ہر باضمیر انسان سے سوال کرتے ہیں کہ کہاں ہیںوہ لوگ جو حق اور سچ کے علمبردار تھے؟کہاں ہیں وہ مسلمان، جن کا نبی رحمت للعالمین ہے؟ کیا تمہاری انسانیت صرف رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر جاگتی ہے؟ کیا فلسطینی ماں کا دکھ، اس کے بچے کی لاش، تمہیں جھنجھوڑتی نہیں؟ کیا تمہارا دل نہیں کانپتا جب ایک پانچ سالہ بچہ اپنے بھائی کی لاش کے پاس کھڑا ہو کر کہتا ہے:بھائی! جاگو نا، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کیا انسانی حقوق صرف مغرب کے انسانوں کے لیے ہیں؟ کیا بچوں کا خون صرف تب قابلِ مذمت ہے جب وہ کسی مغربی ملک میں بہے؟ کیا مظلوم کی فریاد اس لیے دب جاتی ہے کہ وہ فلسطینی ہے، مسلمان ہے، مظلوم ہے؟

آج جبکہ دنیا چاند پر بستیاں بسانے کی بات کر رہی ہے، افسوس کہ عالمی ادارے، طاقتور ممالک، انسانیت کا عَلَم بلند کرنے والے ادارے، امن کے ٹھیکے دار، آزادی کے دعوے دار، انسانی حقوق کے علمبردار، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوامِ متحدہ اور مہذب دنیا کی حکومتیں سب محض بیانات تک محدود ہو چکی ہیں۔ وہی مغرب جو ایک تصویر پر احتجاج کرتا ہے، آج ہزاروں لاشوں پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان کے ضمیر سو چکے ہیں، ان کی زبانیں گُنگ ہیںاور ان کی آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی انسانیت ہے؟ کیا یہی عالمی ضمیر ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ کا مطلب صرف قرار دادیں ہیں؟کیا عالمی طاقتیں صرف معاشی مفادات کے لیے جاگتی ہیں؟ کیا انسانیت کے پاس اب بھی کچھ بچا ہے جس پر وہ فخر کر سکے؟ کیا دنیا کے انصاف کے ترازو میں مظلوموں کا لہو اتنا ہلکا ہو چکا ہے؟ کیا ان کا خون انسان کاخون نہیں؟ کیا ان کی چیخیں کمزور ہیں؟ کیا ان کے آنسو پانی کے قطرے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر انسانیت کی آنکھیں کیوں بند ہیں؟ انصاف کی زبان کیوں گنگ ہے؟ فلسطین میں نسل کشی کی تاریخ دراصل ایک تسلسل ہے جس کا آغاز کئی دہائیاں پہلے ہو چکا تھا۔ اس کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب عالمی برادری اس کے خلاف آواز اٹھائے، اسرائیل پر دباؤ ڈالے اور فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر فلسطین میں ہونے والے ان مظالم کو نظرانداز کیا گیا تو یہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک سانحہ بنے گابلکہ پوری انسانیت کے لیے بھی ایک سیاہ باب ہوگا۔ اس نسل کشی کا ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اپنے ظلم و جبر کے لیے کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا رہی۔ یہ خاموشی ایک نیا بحران بن چکی ہے جس کے نتائج صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔