رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اہم خلیجی ملک قطر پر اسرائیل مخالف مہم کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیل مخالف مظاہروں کی تحریک کے پیچھے قطر کھڑا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف مظاہروں کو ہوا دینے میں قطر کا کردار ہے۔
اپنے حالیہ دورہ امریکا کے دوران نیتن یاہو نے چینل کرسچن ڈیسٹار کو انٹرویو دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف مظاہروں کو قطر ہوا دے رہاہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ایران کو بھی شامل کردیا ہے اور کہاہے کہ ایران اور قطر دونوں اس مہم میں شامل ہیں۔ خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس سے قبل فروری میں بھی قطر پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ قطر کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ جدید مشرق وسطیٰ میں کس سائیڈ کھڑا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم ایک ایسے وقت قطر پر مسلسل الزامات عائد کررہے ہیں جب قطر غزہ میں جنگ بندی اور حماس واسرائیل کے درمیان قیدی تبادلے کے معاہدے میں ثالث کا کردار ادا کررہاہے۔ لیکن اس کے ساتھ اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف قطر گیٹ کے نام سے رشوت کے ایک کیس پر تحقیقات جاری ہیں۔جس میں اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے دو سینئر ملازمین کو حراست میں بھی لیا گیا ہے ۔ برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق حالیہ چند دنوں کے دوران اسرائیل میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن کا تعلق براہ راست قطر گیٹ نامی اسکینڈل سے ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کو گزشتہ ہفتے اسی اسکینڈل کی وجہ سے پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔اسرائیل کے سنجیدہ جرائم کے یونٹ سے تعلق رکھنے والے تفتیش کاروں نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ان کے بیت المقدس میں واقع دفتر میں سوالات کیے۔ اس ملاقات کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم کو تل ابیب کی ڈسٹرکٹ عدالت سے جلد نکلنا پڑا جہاں وہ ایک اور کرپشن مقدمے میں بیان دے رہے تھے۔ قطر گیٹ ہے کیا اور اس کا قطر کے ساتھ کیا معاملہ ہے اس حوالے سے عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیروں سے جڑا ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے مبینہ طور پر قطر کے لیے لابنگ کی۔ اس مقدمے میں فی الحال نیتن یاہو ملزم نہیں ہیں بلکہ ایک گواہ کے طور پر ان سے سوالات کیے گئے۔ تاہم گزشتہ ہفتے اسرائیلی پولیس نے ان کے دو قریبی مشیروں کو حراست میں لے لیا جو اس مقدمے کے مرکزی ملزمان ہیں۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق نیتن یاہو کی جانب سے دیا جانے والا بیان بہت احتیاط سے جانچا جائے گا جس کے بعد اٹارنی جنرل اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ مقدمے میں ان کی کیا حیثیت ہو گی۔اس تفتیش کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان ایلی فیلڈسٹین پر الزام عائد ہوا کہ انھوں نے قطر میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی کمپنی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔
اسرائیلی پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کے مطابق ایلی فیلڈ سٹین، جو اس وقت فوج کے ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، کی مدد سے اس کمپنی نے قطر کا ایک مثبت پہلو اجاگر کرنے کے لیے مواد مہیا کیا جسے اسرائیلی میڈیا میں تشہیر ملی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان پر الزام ہے کہ انھوں نے قطری کاروباری منصوبوں کو بھی اسرائیل میں مدد فراہم کی۔تاہم تفتیش کاروں کے مطابق اس کام میں وہ اکیلے نہیں تھے اور جلد ہی انھوں نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ایک اعلیٰ مشیر جوناتھن ارچ کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا اور ان دونوں کو ایک امریکی شہری نے اس کام کے لیے معاوضہ ادا کیا جو قطری کمپنی کی نمائندگی کر رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق مارچ میں پولیس نے ان دونوں اسرائیلی عہدیداران سے پوچھ گچھ کی جس کی بنیاد ایک غیر ملکی ایجنٹ سے رابطہ قائم کرنے، فراڈ، منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کے الزامات تھے۔ تاہم اس مقدمے کے حوالے سے حساس معلومات ظاہر نہ کرنے کے عدالتی حکم کی وجہ سے اس وقت بہت زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔تاہم فیلڈسٹین پر خفیہ دستاویزات کو لیک کرنے اور اسرائیل کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی شامل ہیں۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے ایک اعلیٰ مشیر جوناتھن ارچ اور اسرائیلی فوج کے سابق ترجمان فیلڈسٹین کے علاوہ نیتن یاہو کی سیاسی جماعت کے سابق کنسلٹنٹ اسرائیل این ہورن بھی اس مقدمے میں شامل ہیں۔اس تفتیش کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے ایک اسرائیلی کاروباری شخصیت گل بیرجر سے منسلک ریکارڈ کی اشاعت ہوئی اور یہ علم ہوا کہ انہوں نے فیلڈسٹین کو قطری حکومت کے لیے کام کرنے والے لابسٹ کی جانب سے رقم ٹرانسفر کی ہے۔اس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نے تفتیش کا آغاز کیا اور بہت سے صحافیوں کو بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک صحافی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ براہ راست قطری حکومت کے لیے کام کرنے والی شخصیات سے رابطے میں تھے جنھیں کیس میں غیر ملکی ایجنٹ کا نام دیا گیا ہے۔اس تفتیش کے آغاز کے بعد اسرائیلی حکومت میں کھلبلی مچ گئی اور بہت سے لوگوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ اگرچہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے قریبی عہدیداران ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم حکومت نے غیر معمولی اقدامات اٹھائے تاکہ تفتیش کو کسی طرح روکا جا سکے۔ لیکن ان اقدامات نے وزیر اعظم نیتن یاہو کے مخالفین کے شکوک کو مزید بڑھا دیا۔21مارچ کو یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی کاوئنٹر انٹیلی جنس ادار ے شاباک کے سربراہ کو عہدے سے ہٹا دیا جبکہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے ایسا کرنے پر پابندی لگائی جا چکی تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل میں ایک انتہائی خفیہ ادارے کے سربراہ کو اس طریقے سے عہدے سے ہٹانا نہایت سنجیدہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر اس قدم کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ شن بیٹ کے سربراہ سات اکتوبر 2023ء کو ہونے والے حماس کے حملے میں ناکامی کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ اعتماد کھو چکے تھے۔ تاہم نیتن یاہو کے اس قدم کو سیاسی سمجھا جا رہا ہے اور اسے وزیر اعظم کے اس اسکینڈل میں ملوث ہونے پر تفتیش سے جوڑا جا رہا ہے۔
اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے بعد میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ شن بیٹ کے سربراہ کو ہٹانے کا فیصلہ معطل کیا جائے لیکن نیتن یاہو نے ایک نئے سربراہ کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کے بعد یہ کوشش کی گئی کہ تفتیش کی سربراہی کرنے والے پراسیکیوٹر جنرل کو بھی ہٹا دیا جائے۔اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ کو ہٹانے کے دو دن بعد 23مارچ کو اسرائیلی کابینہ نے متفقہ طور پر اٹارنی جنرل پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اس عمل میں نیتن یاہو شریک نہیں تھے کیوں کہ مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کے تحت وہ قانونی نظام سے جڑے کسی معاملے میں شرکت نہیں کر سکتے۔اس حکومتی کوشش کی سربراہی وزیر برائے انصاف نے کی۔
یاد رہے کہ اٹارنی جنرل نے ہی رواں سال فروری میں خفیہ ادارے اور پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس اسکینڈل کی تفتیش شروع کریں۔عبرانی میڈیا کا کہناہے کہ نیتن یاہو کو اپنا سیاسی مستقبل ڈوبتا نظر آرہا ہے اور وہ بڑی بدنامی کے ساتھ اپنا آخری دور حکومت بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ غزہ جنگ کے بارے میں بھی اسرائیلی میڈیا کا کہناہے کہ یہ جنگ نیتن یاہو کے سیاسی تحفظ کے لیے ہے۔