صہیونی عقوبت خانوں میں مظالم کی دلخراش داستان

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
پہلی قسط:
فلسطینی عوام بالخصوص اسیروں کے خلاف قابض اسرائیلی دشمن اور فاشسٹ ریاست نے نابلس شہر سے تعلق رکھنے والے قیدی مصعب حسن عدیلی کو دوران حراست وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق عدیلی کو ایک سال قبل نابلس شہر سے گرفتار کیا گیا اور اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ حالت بگڑنے کے بعد اسے سووروکا ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ منظم طبی غفلت اور صہیونی جلادوں کی مجرمانہ لاپرواہی سے جام شہادت نوش کرگئے۔ فلسطینی کلب برائے امور اسیران اور امور اسیران کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ انہیں 20سالہ عدیلی کی شہادت کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ اسے 22مارچ 2024 ء کو حراست میں لیا گیا تھا اور ایک سال اور ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بیان کے مطابق شہید قیدی عدیلی کی شہادت کے بعد حالیہ عرصے کے دوران صہیونی زندانوں میں شہید ہونے والے فلسطینی اسیروں کی تعداد 64ہو گئی ہے۔

یہ قیدیوں کی وہ تعداد ہے جس کی شناخت کی گئی۔ شہید ہونے والے کم از کم 40فلسطینی غزہ کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد اسیروں کی شہادت اور صہیونی عقوبت خانوں کی خونی تاریخ کا سب سے المناک باب ہے۔ اسیروں کے حقوق پر نظر رکھنے والے اداروں نے مزید کہا کہ فلسطینی قیدیوں کے قومی دن پر عدیلی کی شہادت سفاک اسرائیلی نظام کے ریکارڈ میں ایک نیا جرم ہے جس نے قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے ہر قسم کے جرائم کو معمول بنا رکھا ہے۔

اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ قیدی عدیلی کی موت قابض صہیونی اور اس کی فاشسٹ جیل انتظامیہ کی طرف سے قیدیوں پر مسلسل انتقامی کارروائیوں اور تشدد کو ثابت کرتی ہے۔ قابض صہیونی ریاست فلسطینی اسیران کے خلاف کئی اقسام کے جرائم کی مرتکب ہے جن میں ایک سنگین جرم بیماروں اور زخمیوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علاج سے محروم کرتے ہوئے انہیں سسک سسک کر موت کے منہ میں جانے پر مجبور کرنا ہے۔

کلب برائے امور اسیران نے نشاندہی کی کہ یہ جرم فلسطینی قیدیوں کے قومی دن کے موقع پر ہوا۔ جس روز عدیلی کو صہیونی زندانوں سے رہا کیا جانا تھا، اس کی شہادت اس کے تین روز قبل عمل میں لائی گئی۔ قیدیوں کے خلاف قابض ریاست کے جرائم میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

فلسطینی قیدیوں پر تشدد کا مجرمانہ صہیونی ریکارڈ گزشتہ دہائیوں کے دوران سنگین نوعیت کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ قیدیوں کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنے، بدسلوکی، تشدد اور طبی غفلت سے دوچار کرنے اور دانستہ قتل تک اسیران تحریک کے شہدا کی تعداد جن کی شناخت 1967ء سے معلوم ہوتی ہے 331تک پہنچ چکی ہے۔ ڈیڑھ سال قبل غزہ میں فلسطینی نسل کشی کی جنگ شروع ہونے کے بعد 62قیدیوں کو شہید کیا گیا ہے۔ 1948ء کے نکبہ کے بعد سے قابض ریاست نے درجنوں جیلیں، تفتیشی مراکز اور حراستی مراکز قائم کیے ہیں، جن میں سے اکثر کی نگرانی اسرائیلی فوج کرتی ہے۔ وہاں ہر سال ہزاروں فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے، انہیں قتل، تشدد اور ذلت آمیز غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار اور فلسطینی اداروں کی معلومات کے مطابق 1967 ء سے اب تک دس لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی عقوبت خانوں میں ڈالے گئے جن میں دسیوں ہزار بچے بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم بتسلیم نے بھی اگست 2024ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں اسرائیلی حراستی مراکز میں 10,000 سے زائد فلسطینیوں کے غیر انسانی حالات اور ان پر تشدد اور تذلیل کا ذکر کیا گیا تھا۔ رپورٹ کو” جہنم میں خوش آمدید” کا عنوان دیا گیا۔ زیادہ تر فلسطینی قیدیوں کو انسانی زندگی کے لیے ضروری سامان اور شرائط کے بغیر ان کی گنجائش سے کئی گنا زیادہ گندگی سے بھرے سیلوں میں رکھا جاتا ہے۔

اسرائیلی جیلوں کی تاریخ فلسطینی دیہاتوں اور قصبوں میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران صہیونی گروہوں کی طرف سے قائم کیے گئے وسیع فیلڈ حراستی مراکز سے شروع ہوتی ہے، جو 1948ء کے اوائل میں شروع ہوئے اور اسی سال مئی میں قابض ریاست کے قیام کے بعد بھی جاری رہے۔ 1948 ء اور 1949ء میں صہیونی بلوائیوں اور بعد میں قابض اسرائیلی فوج نے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ زیادہ تر ایسے لوگ گرفتار کیے گئے جنہوں نے اپنے گھر بار جبراً خالی کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ ان میں بچے، خواتین اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ انہیں خاردار تاروں سے گھرے عارضی اجتماعی حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا یا۔ برطانوی مینڈیٹ سے وراثت میں ملنے والے تھانوں یا جیلوں میں قید کردیا گیا۔ شروع میں عارضی حراستی مراکز کا ایک گروپ سامنے آیا، جنہیں سرافند اور حیفا حراستی مرکز کا نام دیا گیا۔ یہ حراستی مرکز کوہ کارمل کی اونچی ڈھلوانوں پر قائم کیا گیا تھا۔ حراست میں لیے گئے افراد کو بعد میں عارضی کیمپوں سے مرکزی حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا، جن کی نگرانی ارگن، اسٹرن گینگ اور ہاگناہ کے ارکان کرتے تھے۔ وہاں انہیں مختلف قسم کی بدسلوکی، تشدد اور فاقہ کشی کے ساتھ ساتھ ملک بدری کے احکامات یا بغیر کسی الزام یا مقدمے کے پھانسی پر چڑھایا گیا۔

قابض اسرائیل نے برطانوی استبداد کے دور میں قائم کردہ حراستی کیمپوں اور تفتیشی مراکز کا استحصال کیا، جو اس نے فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد قبضے میں لیے تھے۔ ان مراکز میں عتلیت حراستی مرکز، سرافند لیبر سینٹر اور نئے حراستی مراکز جیسے کہ الجلیل حراستی مرکز اور ام خالد لیبر سینٹر قائم کیے تھے۔ اس وقت اسرائیل نے چار حراستی مراکز کو تسلیم کیا تھا، ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (ICRC) کو 1949ء کے اوائل میں ان کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ آئی سی آر سی نے بتایا کہ زیادہ تر حراست میں لیے گئے افراد امیں الجلیل کے دیہات کے کسان تھے جنگجو نہیں تھے۔ (جاری ہے)