روہنگیا مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات

تحریر: محمد امین ندوی(چٹاگانگ بنگلہ دیش)
روہنگیا مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات کے سلسلہ میں واضح طور پر بات کو سمجھنے کے لئے مسئلہ کا پس منظر اور کچھ دیگر ضروری حقائق کا جان لینا ضروری ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل اور مشکلات میں سب سے زیادہ اس خطہ میں ان کے وجود کو تسلیم نہ کیا جانا ہے حتی کہ برمی حکومت اور مگھ قوم ان کے ملک اراکان کو سینو تبتی نسل کا علاقہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے حالانکہ قدیم زمانہ سے یہ علاقہ عظیم تر ہند کا حصہ رہا ہے۔

اراکانی روہنگیا مسلمانوں کا تعلق دراویڈی نسل سے ہے۔ تاریخی شواہد سے یہ ثابت شدہ ہے کہ اراکان میں روہنگیا کا وجود آٹھویں صدی سے ہے اور جینیاتی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ روہنگیا اراکان میں دخل اندازی کرنے والے نہیں ہیں، بلکہ وہ پہلے دراوڑی باشندوں کی اولاد ہیں جو ہزاروں سال پہلے اس علاقے میں آباد تھے۔ موجودہ روہنگیا میں ڈی این اے ٹیسٹ کے مطابق دراوڑی جینز کا تناسب 30-40ہے۔ جو مگھ یا راکھین کی نسبت سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے برعکس، مگھ یا راکھین میں سینو، تبتی جینز زیادہ ہیں کیونکہ وہ برما، تبت اور چین سے دسویں صدی میں آئے، وہ حقیقی تارکین وطن کا گروہ بنا۔ اس تاریخ کو تسلیم کرنا روہنگیا کے حقوق کو ان کی اصل سرزمین پر بحال کرنے کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔

ارکان کی دراویڈی نسل شمالی دراویڈین کی مشرقی شاخ ہے۔ شمالی دراویڈین شاخ کی طرف منسوب Kurukhنسل انڈیا اور بنگلہ دیش میں پائی جاتی ہے اور یہ بنگلہ دیش میں واحد اصلی دراویڈی زبان کا لہجہ ہے۔ دراویڈی نسل پر عبور رکھنے والوں کے مطابق اور ماہرین لسانیات، انتھروپولوجیسٹ، علم نسلی وراثت کے ماہرین اور مورخین کے مطابق جیسا کہ کتاب ”بشری جینیات کی تاریخ وجغرافیہ” میں لکھا گیا ہے کہ دراویڈی نسل سے پہلے برصغیر میں آسٹرو ایشین نسل کے لوگوں کا پتہ چلتا ہے۔ مگھوں کے اس خوف کی بنا پر کہ روہنگیا اصل قدیم مقامی باشندے ہیں جن کا تعلق برصغیر کے سب سے قدیم باشندے دراویڈین نسل سے ہے، کہیں ہم دسویں صدی اور اس کے بعد فی زمانہ تک ارکان میں دراندازی اور گھس بیٹھ کرنے والوں کے لئے مسئلہ نہ بن جائے، اس لئے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ان پر مظالم کا سلسلہ شروع کر کے ان کا وجود مٹانے کی کوششوں میں لگ گئے۔ اس میں ان کی طرف سے روہنگیا پر ڈھائے جانے والے مظالم کے انتقام کے خوف کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ”تہذیب وتمدن کی کشمکش” کا بھی بڑا کردار ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں روہنگیا زبان بولنے والی قوم ”مارامگی” یا ”برگوا/ بروا” جو بدھوں کے مذہبی پیشوا (بدھ بھکشو) ہیں، انہیں سر آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے کیونکہ وہ اگرچہ روہنگیا زبان بولتے ہیں لیکن بدھ مت کے نہ صرف پیروکار ہیں بلکہ مذہبی پیشوایان قوم (بدھ بھکشو) ہیں اور مگھ زبان وثقافت اختیار کرنے والی مسلم اقوام سے بھی کوئی تعرض نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں بنگلہ دیش خاص کر کے چاٹگام میں رہائش پذیر مگ بودھوں کو تو اسلامی رواداری کی بنیاد پر بطور شہری قبول کر لیا گیا اور انہیں شہریت کے تمام حقوق دیے گئے جب کہ وہ مقامی نہیں ہیں لیکن برما میں ارکان کے اصل باشندے روہنگیا کو تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے حالانکہ ان کے آباء واجداد چندرا خاندان نے دھنیاوادی میں ارکانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی، اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ارکانی حکومت برما کے بجائے ہمیشہ برصغیر ہندوستان کے زیر اثر رہا ہے۔

تمام ناقابل تردید تاریخی حقائق کے باوجود مسلم دشمن برمی حکومت اور انتہا پسند مگھ (رکھائن) پڑوسی ممالک سے ارکان میں اپنی دراندازی پر پردہ ڈالنے کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ روہنگیا چاٹگام سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ 1982 میں برمی قانون شہریت منظور کر کے روہنگیا مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا اور 2015 کے عام انتخابات میں آکر علی الاعلان روہنگیا مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ دینے سے محروم کر دیا گیا۔ حالانکہ 1936سے 2010 تک کے تمام عام انتخابات میں وہ شرکت کرتے آئے ہیں، جن میں تیس کے قریب روہنگیا ایم پی اور منسٹر منتخب ہوئے۔ 2012اور 2014اور 2017میں نئے سرے سے ظلم وستم اور نسل کشی کی کارروائیاں شروع ہوئیں جس سے دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

اگست 2024میں بنگلہ دیش میں نئی عبوری گورنمنٹ قائم ہوئی جو روہنگیا مسلمانوں کے اس دیرینہ مسئلہ کی پائیدار حل کے لئے کوشش کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ماتحت تمام اسٹیک ہولڈروں پر مشتمل ڈھاکہ میں روہنگیا ایشو پر ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ادھر خطے میں جیواسٹرٹیجک تبدیلی بھی آئی ہے، مگھوں کی حکومت مخالف تنظیم اراکان ارمی نے اراکان کے سترہ شہروں میں سے تین کو چھوڑ کر باقی سب پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا ارادہ بقیہ تینوں شہروں پر بھی قبضہ کر کے برما سے اراکان کی آزادی کا اعلان کرنا ہے۔ ایسے میں روہنگیا مسلمانوں کے مستقبل کا سوال بہت اہم ہوگیا ہے۔ اسلامی دنیا کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔