یہودیوں کی عید الفصح مسجد اقصیٰ کی بقا کیلئے سب سے بڑا خطرہ

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
یہودیوں کا سب سے مقدس سالانہ تہوار پیر 14اپریل سے شروع ہو ا۔ عید الفصح یا پیسح Pesach نامی اس تہوار کو انگریزی میں پاس اوور (Passover) کہا جاتا ہے۔ عبرانی کیلنڈر کے مطابق یہ تہوار جمعرات 17اپریل تک مسلسل چار دن تک جاری رہا۔ اس موقع پر مسجد اقصیٰ کے حرم قدسی کے احاطے میں صہیونیوں نے اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے ساتھ میوزیکل کنسرٹ کا بھی انعقاد کیا۔ مسجد اقصیٰ کے قریب بلند آواز میں گانے بجا کر حرم قدسی کے ماحول کو مکدر اور مقامی فلسطینی باشندوں کا خون جلا رہے ہیں۔ انہیں سیکورٹی اہلکاروں کی فول پروف حفاظتی چھتری میسر ہے۔ واضح رہے کہ یہ دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بنی اسرائیل کو بحر قلزم کو پار کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

اس دن فرعون لشکر سمیت ہلاک اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ عید فصح کی آمد کے ساتھ مبارک مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انتہاپسند ٹیمپل گروپس نے پہلے سے ایک بڑے پیمانے پر دراندازی کے پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں روزانہ سینکڑوں انتہا پسند آباد کار مسلسل صبح مسجد اقصیٰ کے احاطے پر دھاوا بولتے رہے۔ اس دوران یہودی آباد کار گروہوں کی شکل میں مسجد میں داخل ہوتے ہیں، صحنوں میں رقص جیسی اشتعال انگیز سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ مقدس مقام کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور بعض آبادکار تلمودی رسومات بھی ادا کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ حسب سابق اس بار بھی یہ اقدامات فلسطینیوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچانے اور علاقے میں کشیدگی کو ہوا دینے کا باعث بنے۔

دوسری جانب قابض فوج نے عید فصح کی آڑ میں مسجد اقصیٰ اور پرانے بیت المقدس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔ عید فصح کے پہلے ہی روز صبح 1149آباد کاروں نے یکے بعد دیگرے گروہوں کی شکل میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا۔ اس موقع پر قابض صہیونی پولیس کی طرف سے انتہا پسندوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔ پھر ہفتے کی شام یہودیوں نے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق بائبلیکل فصح شروع کیا۔

اس تہوار کو بائبل کی تین اہم یہودی تعطیلات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد اقصیٰ کے لیے سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جاتی ہے، اس دوران وہ ہر سال مسجد اقصیٰ کے اندر بھیڑ کی قربانی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بار بھی متعدد جنونی صہیونی بھیڑ مسجد کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ القدس کے محقق زیاد ابحیص کے مطابق یہ دراندازی صرف مذہبی یا سیاحتی دوروں کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، بلکہ یہ ایک واضح منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی مذہبی خودمختاری کو مسلط کرنا، اسے بتدریج ایک بائبلی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا اور اس کی تاریخی اور قانونی حیثیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز پیر کو ایک معروف یہودی مذہبی شخصیت، ٹیمپل مانٹ ان آور ہینڈز تنظیم کے بانی ٹومی نیسانی کی قیادت میں ہوا، جو روزانہ مسجد اقصیٰ پر چھاپوں پر اکسانے اوتیسرے ہیکل کی تعمیر کا مطالبہ کرنے میں سرگرم ہے۔ نیسانی اپنی پرتشدد بیان بازی اور مسجد اقصیٰ کی اسلامی حقیقت کو زبردستی تبدیل کرنے پر اکسانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ دھاوے15اپریل سے پروفیسر ڈین بٹ کی شرکت کے ساتھ جاری رہے، جو بائبل کا ماہر آثار قدیمہ ہے۔

القدس کے تاریخی بیانیے کو اسلامی اور مسیحی نوادرات کو بائبل کے افسانوں کے ساتھ جوڑ کر مسخ کرنے کا کام کرتا ہے۔ اسی دن انتہا پسند میڈیا کارکن آرنون سیگل جو مسجد اقصی کے اندر”بائبل کی قربان گاہ”کے قیام کی کھل کر تشہیر کرتا ہے اور اپنے پوسٹروں کے لیے جانا جاتا ہے، جس میں انتہا پسند وزیر ایتمار بین گویر کو مسجد کے صحنوں میں ”قربانی کا نذرانہ”رکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

بدھ کے روز دھاووں کے ساتھ آنے والی شخصیت صہیونی مستشرق موردچائی کیدار تھی، جو عرب اور اسرائیلی حلقوں میں یکساں طور پر سب سے زیادہ متنازعہ شخصیات میں سے ایک ہے۔ یہ پروگرام 17اپریل کو موشے فیگلن کی قیادت میں ایک چھاپے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جو اپنے انتہا پسندانہ خیالات کے لیے مشہور ربی، شناخت پارٹی کا لیڈر اور کنیسٹ کا سابق ڈپٹی اسپیکر ہے۔ فیگلن بائبل کے نمونے متعارف کروا کر اور عوامی سطح پر رسومات ادا کر کے الاقصیٰ کے اندر ایک نئی حقیقت مسلط کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسجد کے اندر اپنی موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جس کا مقصد دھاوا بولنے آباد کاروں کے ایک سے زیادہ گروپ کے ساتھ جانا ہے۔ ایک پریس بیان میں ابحیص نے زور دے کر کہا کہ اس پروگرام کا مقصد نہ صرف عید فصخ کے دوران مسجد میں گھسنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے، بلکہ مسجد کے اندر ان کی علامتی اور اخلاقی موجودگی کو مضبوط کرنا ہے، اسے اجتماعی شعور کی سطح پر مذاہب کی مشترکہ جگہ میں تبدیل کرنا ہے، حالانکہ اس کی تاریخی اور مذہبی نوعیت خالصتا اسلامی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ مسجد اقصیٰ کی قانونی اور تاریخی حقیقت کو تبدیل کرنے کی وسیع تر اسرائیلی حکمت عملی کا حصہ ہے، جو بین الاقوامی قراردادوں بالخصوص یونیسکو کی قرارداد کی براہ راست خلاف ورزی ہے، جس نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ الاقصی ٰصرف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اس خطرناک کشیدگی کے پیش نظر مقبوضہ بیت المقدس کے لوگ مسجد الاقصی ٰکے دفاع میں پیش پیش ہیں۔

عید فصح کے دوران اس کے صحنوں میں جمع ہو کر اس کی حفاظت کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ اس کے برعکس مسلم ممالک کی معنی خیز خاموشی یہودیوں کی مزید تقویت کا باعث بن رہی ہے۔ اس بار عید فصح کے آغاز سے آخر تک مجموعی طور پر 5000سے زائد انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں داخل ہو کر قبلہ اول کی بے حرمتی کی۔ ان دراندازیوں کے دوران اسرائیلی افواج نے مسجد اقصیٰ کے دروازے فلسطینی نمازیوں پر بند کر دیئے اور انہیں عبادت سے روک دیا۔ اسی دوران مقبوضہ مغربی کنارے کے کئی علاقوں میں آبادکاروں نے اشتعال انگیز مارچ کیے۔ القدس میں اسلامی اوقاف کے ترجمان فراس الدبس نے مونٹ کارلو انٹرنیشنل ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف اسرائیلی افواج کی ایک بڑی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے وزیر ”ایتمار بن گویر”کی حمایت کے باعث یہ حملہ سب سے خطرناک نوعیت کا ہے، کیونکہ اس نے آبادکاروں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔فراس کے مطابق آبادکاروں نے مسجد کے صحنوں میں تلمودی عبادات اور رقص بھی کیے، جو کھلی اشتعال انگیزی اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہے۔

”کنائس القدس ”یروشلم کے کلیساؤں اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ عیسائیوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے تاکہ وہ اپنے مذہبی فرائض ادا کر سکیں۔ مگراسرائیل نے ان کی اپیل کو مسترد کردیا۔ واضح رہے کہ مغربی کنارے میں عیسائیوں کی آبادی50000ہے اور غزہ میں 5000 مسیحی بھی صہیونیوں کے ہاتھوں مظالم کا شکار ہیں۔