رپورٹ: عرفان احمد عمرانی
فلسطین وغزہ میں اسرائیل کے ظلم و ستم، بمباری اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف پاکستان میں احتجاج شدت اختیار کر گیا،شہر شہر مظاہرے جاری ہیں،ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تاجر، وکلا، علماء کرام،دینی جماعتیں احتجاج میں پیش پیش ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے خاموش ہیں،ان کا کوئی احتجاج تک نظر نہیں آیا، یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ زور پکڑ گیا،وکلا کا اسرائیل کے خلاف احتجاج ،اکثر بارز میں یہودی مشروبات کی فروخت پر پابندی لگا کر غیرت ایمانی کا ثبوت د ے دیا۔
قومی اسمبلی میں غزہ میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر کے ارکان اسمبلی نے امریکا اور اسرائیل کی شدید مذمت کی اور پاکستانی قوم کے موقف کو واضح کر دیا،ایوان نے فلسطین کے 60 ہزار شہداء کو سلام بھی پیش کیا ہے، قرارداد میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اسرائیلی جارحیت کو عالمی برادری کی ناکامی تصور کرتی ہے، قومی اسمبلی نے فلسطین سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا مطالبہ بھی کیا ہے،پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی حمایت کر دی اور اقوام متحدہ سے اسرائیلی مظالم بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان میں بھرپور احتجاج میں شریک عوام اور علماء قائدین نے تمام مسلم حکمرانوں سے ان کے خلاف جہاد کے فتوے پر عمل درآمد کی اپیل کی ہے، مفتی تقی عثمانی اور مولانا مفتی منیب الرحمن کے فتوے کی پورے ملک میں تائید کی جارہی ہے اور اس فتوے پر عمل درآمد کا مطالبہ زور و شور سے جاری ہے۔
مارچ 2025ء سے سیز فائر ہونے کے باوجودفلسطینیوں پر شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں، ظلم و سفاکیت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق شہادتوں کی تعداد ابتک 60 ہزار سے زائد اور زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور غزہ کی پٹی سے 15 ہزار سے زائد فلسطینی تاحال لاپتہ ہیں۔فلسطین،غزہ میں اسرائیلی بمباری نے سنگین صورت اختیار کر لی بچے کچے افراد پر بھی موت کے سائے منڈلا رہے ہیں ۔ غزہ میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے غزہ میں روزانہ بچوں کو نشانہ بنانے سے شہدا میں 275 نو مولود اور ایک سال سے کم عمر کے 876 بچے بھی شامل ہیں،جدید تاریخ میں یتیموں کا سب سے بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے،39 ہزار بچے یتیم ہو گئے اور ساتھ ہی بمباری کے باعث گھروں کی تباہی کے باعث بے گھر اور 17 ہزار بچے ماں باپ دونوں سے محروم ہو گئے،60 ہزار بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں،اسرائیلی مظالم نے حقیقت میں انسانیت کا بھی جنازہ نکال دیا، انسانی ابتر و بدترین قحط سے صورتحال سنگین ہو گئی طبی امداد معطل ہونے سے 60 ہزار بچوں کی صحت کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ اسی طرح ہزاروں فلسطینی مائیں موت کے دہانے پر ہیں ۔بیماری سے اسرائیل نے بمباری سے واحد فعال ہسپتال بھی تباہ کر دیا۔ صہیونی شیطان مسجد اقصٰی پر بھی دھاوا بول رہے ہیں، ساتھ ہی الخلیل مسجد کی بھی بے حرمتی سے باز نہیں آرہے،اس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی انتہا کر دی گئی مگر پوری دنیاو انسانی حقوق کا علمبردار خاموش اور سرزمین فلسطین میں آگ و خون کے کھیل سے نظریں چرا رہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے جاری بالعموم اور بالخصوص گذشتہ ایک ماہ سے جاری صہیونی مظالم سے انسانیت چیخ اٹھی ہے لیکن ظلم ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اس ضمن میں عالمی طاقتیں انسانیت کی بجائے اپنی اپنی سیاست کو اہمیت دیتی نظر آرہی ہیں اور توازن کا پلڑا ایک ہی جانب جھکا ہوا ہے۔
عرب ممالک سمیت دنیا فلسطینیوں سے لا تعلق والا معاملہ پیش کر رہی ہے، عرب لیگ نے بھی سنگدلی کے ساتھ بے حسی کی انتہا کردی ہے، پاکستان میں مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی ہے، ایک طرف عوا م اور دینی جماعتیں فلسطینیوں کے حق میں واضح آواز اٹھا رہی ہیں مگر لبرلز، یہودی لابی کے عناصر جہاد کے فتوے کا مذاق اڑا رہے ہیں،اس فتوے کا تمسخر اڑا کر اللہ کے غضب کو دعوت دی جا رہی ہے،ایک سیاسی جماعت کے لوگوں نے جہاد کے فتوے پر حد کر دی علماء کرام اور مفتیان عظام کونشانہ بنایا جا رہا ہے، ایک سابق وزیر نے علماء کو فلسطین بھیجنے کے لیے خرچہ دینے کی بات کر کے دراصل فتوے وجہاد کی توہین کی ہے، جواب میں 100 اور200 نہیں ہزاروں نوجوان فلسطین میں جا کر جہاد کے لیے تیار ہو گئے مگر اور وہ غائب ہو گیا،جذبہ جہاز سے سرشار نوجوان حکومت سے فلسطین جانے کی اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں ہزاروں نوجوان فلسطین جانے اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدداور صہیونی ریاست کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے بے چین ہیں۔
عالمی میڈیا حقائق چھپا رہا ہے،جبکہ عربی میڈیا نے بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے پاکستانی میڈیا بھی اسرائیلی سفاکیت کو عام سے خبر سمجھ کر اندرونی صفحات میں سنگل کالم سے 2 کالم سے زیادہ جگہ نہیں دے رہا گلی محلوں میں ہونے والی لڑائیوں کی خبر بھی نمایا جگہ پا لیتی ہے مگر فلسطینیوں کے قتل عوام پر پاکستانی میڈیا بھی اغیار کے میڈیا کا کردار ادا کر رہا ہے ٹی وی چینلوں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنسر نافذ ہے،
فلسطین اب صرف کسی جغرافیائی خطہ یا حیثیت کا نام نہیں رہا بلکہ اب یہ ایک درد، ایک دکھ، ایک رنج اور ایک سوال بن چکا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ فلسطین کہاں ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ انسانیت کہاں ہے؟اسرائیل تمام عالمی قوانین اور عالمی انسانی حقوق کی پامالی کے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ فلسطین میں خون آشام تباہی کو دنیا مسلسل دیکھ رہی ہے۔
آج کا اسرائیل صرف فلسطینی سر زمین پر ہی قابض نہیں بلکہ اس کی ریشہ دوانیوں اور عالمی طاقتوں کی مددکی وجہ سے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان سمیت پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے اس دوران ہزاروں ٹن بموں کی بارش غزہ اور اس کے اطراف ہوئی ہے۔ان دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فلسطینی عوام کی جہاں جانیں جا رہی ہیں، وہیں انھیں ناقابل بیان تکالیف سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔ ہسپتالوں میں دوائیں ختم ہو چکی ہیں اس سے زخمیوں اور دیگر مریضوں کا علاج ممکن نہ رہا۔ اسکولز خاک کا ڈھیر بن گئے ہیں، بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے ہیں۔ مکانوں پربمباری کر کے فلسطینیوں کو شدید موسم میںکھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورکردیا گیا ہے۔غزہ کی غیر انسانی صورت حال اسرائیلی حکومت کے سیاہ مجرمانہ ریکارڈ پر ایک اور شرمناک داغ ہے۔فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں لیکن انھیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت درکار ہے، اگر اسرائیلی جارحیت نہیں رکتی اور فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر خطے میں امن برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر مسلمان ممالک نے اپنی خاموشی کو نہ توڑا اور فلسطینیوں کی عملی مدد نہ کی تو اسرائیل اور امریکا کا بڑھتا ہوا ظلم تمام اسلامی ممالک کی طرف بڑھے گا اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اسرائیلی و امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر یں، عوام میں شدید اشتعال ہے عوام کے سامنے بنگلا دیشی عوام کا رد عمل بھی موجود ہے لیکن ہم پر امن اور بھر پور احتجاج کریں گے ہم فلسطینی مظلوم عوام کی تاریخی استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔