رپورٹ: علی ہلال
غزہ جنگ سے پیدا ہونے والے اثرات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں اہم تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ عرب ممالک جن کی ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور میں ساری توجہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام پر مرکوز تھیں اب اپنے روایتی حریف ایران کی جانب متوجہ ہونے لگے ہیں۔ مشرق وسطی میں ایک دوسرے کے دو بڑے حریف ممالک ایران اور سعودی عرب کی قربتوں کی کوششوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اس سلسلے میں سعودی وزیر دفاع کے دورہ تہران کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔
جمعرات کو سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان آل سعود ایران کے سرکاری دورے پرتہران پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ سعودی وزیر دفاع کی اپنے ہم منصب کے علاہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنائی کے ساتھ بھی خصوصی ملاقات ہوئی ہے، ملاقات میں سعودی وزیر دفاع نے ایرانی لیڈر کو سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کا خصوصی خط بھی حوالے کیا ہے ۔
ایرانی جریدے الوفاق کے مدیر تحریر مختار حداد نے اس دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ سعودی وزیر دفاع کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی فرمانروا کے خط کے بارے بتاتے ہوئے انہوںنے اس کی تردید کی ہے کہ اس خط میں ایران امریکا مذاکرات سے متعلق کوئی بات ہوئی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بہت اعلیٰ سطح پر لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور حالیہ دورہ بھی انہیں کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی نے ایکس( ٹوئٹر) پر کہاہے کہ سعودی وزیر دفاع کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے ملک کے بادشاہ کا خط بھی ان کے حوالے کیا ہے۔
سعودی خبررساں ادارے واس نے کہاہے کہ سعودی وزیر دفاع ایک بڑے عسکری وفد کی قیادت میں ایران پہنچے ہیں۔ جہاں ان کا استقبال ایرانی آرمی چیف نے خود کیا ۔ ایرانی سپریم لیڈر نے بتایا کہ ان کے دشمنوں کو ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پسند نہیں ہیں۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی تجزیہ کار نے بتایا کہ ان دشمنوں سے مراد امریکا اور اسرائیل ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل سعودی آرمی چیف فیاض الرویلی نے نومبر 2024 ء میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ جنہیں اس دورے کی دعوت ان کے ایرانی ہم منصب نے دی تھی۔
سعودی عرب کے سینئر تجزیہ کار خالد باطرفی نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی عرب کے سینئر ذمہ داروں کا دورہ ایران ایک اچھے دور کے آغاز کی خوشخبری ہے۔ اس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف تعاون اور علاقائی امن کے ساتھ اقتصادی میدان میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں سابقہ ادوار میں صدر ہاشمی رفسنجانی اور صدر محمد خاتمی کے زمانے میں اچھی پیش رفت ہوئی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان کئی معاہدے بھی ہوئے تھے۔ لیکن 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے دوبارہ دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوگئے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016ء میں سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے تھے جو کئی برس کشیدہ رہیں۔ مارچ 2023ء میں چین کی کوششوں سے دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوئے جس کے بعد گزشتہ برس نومبر میں سعودی آرمی چیف اور اس سال اپریل میں سعودی وزیر دفاع نے تہران کا دورہ کیا ۔ جس سے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پیش رفت کا امکان ہے ۔
سعودی وزیر دفاع کے ایرانی دورے سے دو ہفتے قبل ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کرکے خطے میں امن وامان کی موجودہ صورتحال پر بات چیت کی تھی۔ یاد رہے کہ سعودی وزیر دفاع کا حالیہ دورہ ایران 1977 کے بعد سے دوسرا دورہ تہران ہے۔ اس سے قبل سعودی عرب کے سابق وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبد العزیز آل سعود نے مئی 1999 میں ایران کا دورہ کیا تھا ۔
سعودی وزیر دفاع کے دورہ ایران سے قبل مصری صدر جنرل عبد الفتاح السیسی نے قطر کا سرکاری دورہ کیا ۔ قطر اور مصر کے درمیان جولائی 2017ء میں تعلقات ختم ہوگئے تھے۔ چار برس بعد یہ مقاطعہ ختم ہوا تھا لیکن دونوں ممالک کے درمیان پہلے جیسے تعلقات نہیں تھے۔ اکتوبر 2023ء سے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے قطر اور مصر مشترکہ ثالثی کوششیں کررہے ہیں اس تناظر میں مصری صدر کا دورہ قطر بہت اہم ہے۔
اس سے قبل 13اپریل کو شام کے نئے صدر احمد الشرع ترکیہ کے انطالیہ فورم میں شرکت کے بعد متحدہ عرب امارات کے پہلے سرکاری دورے پر ابو ظہبی گئے۔ جہاں ان کی ملاقات متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید سے ہوئی ہے۔ امارات کے بعد شامی صدر نے قطر کا بھی دورہ کیا ۔ جمعرات کو دوحہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی وساطت سے شامی صدر احمد الشرع اور عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات بہت اہم ہے اور خطے کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق خطے میں جاری سیاسی و عسکری صورتحال بالخصوص شام میں اسرائیلی مداخلت کے پیش نظر یہ ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خطے کے عرب ممالک اور ایران کے درمیان خاصی پیش رفت ہورہی ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب غزہ جنگ عروج پرہے اور دوسری جانب اسرائیل نے مسلسل یمن ،شام اور لبنان میں بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ایران کو بھی حملوں کی دھمکی دے رہاہے۔