اسرائیل کی داخلی ناکامیوں کا تماشا

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
اسرائیل کے متکبر حکمراں غزہ، غربِ اردن، جنوبی لبنان، شام اور یمن کو برباد کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن پورس کے یہ مدمست ہاتھی اب خود اسرائیل کو روندتے نظر آرہے ہیں۔ اسرائیل کی قوت کا راز اس کا سراغ رسانی کا کامیاب نظام ہے۔ اس کام کیلئے تین آزاد و خودمختار ادارے کام کررہے ہیں۔ (1)موساد، امریکی سی آئی اے کی طرح ساری دنیا میں اسرائیلی مفادات کے خلاف سرگرمیوں کو سونگھتا رہتا ہے۔ موساد کے ایجنٹ دنیا کے ہرہر کونے میں موجود ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی۔ (2)ملک کے اندر سراغ رسانی شن بیٹ (Shin Bet) Sherut ha-Bitaon ha-Klali کی ذمہ داری ہے جسے عربی میں شاباک کہا جاتا ہے۔

(3)فوج کے اندر سراغ رسانی کیلئے 8200انٹیلی جنس یونٹ تشکیل دیا گیا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس 18سے 21سال کے 5000جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل و دماغ اور قوت کا اصل راز سمجھا جاتا ہے۔ ان تینوں اداروں کے درمیان تعاون مثالی ہے۔ اکتوبر 2023ء میں غزہ پر حملے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کو جس شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ حکومت کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کیلئے غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ جانی و مالی نقصان میں اضافے کے ساتھ انگشت نمائی و الزام تراشی کا آغاز ہوا اور ایوان وزیر اعظم محلاتی سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ عالمی فوج داری عدالت سے صہیونی وزیر اعظم، وزیر دفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری کے بعد ”یہ سب تمہاری غلطی ہے”قائدین کا تکیہ کلام بن گیا۔

اس کے نتیجے میں وزیر دفاع گیلینٹ اور فوج کے سربراہ سمیت صف اول کے جرنیلوں کو مستعفی ہونا پڑا۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کی بددیانتی کی کہانیاں پہلے ہی زباں زد عام تھیں، قطر گیٹ اسیکنڈل کی شکل میں رشوت ستانی کے نئے قصے مشہور ہوئے اور پتا چلا کہ ٹبر کے ساتھ مشیروں کا سارا طائفہ ہی لوٹ مار میں شریک ہے۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ شاباک کی شکل میں گھر بلکہ جڑ میں بیٹھا بھیدی لنکا ڈھا رہا ہے، چنانچہ نتین یاہو نے اس کے سربراہ رونن بار کو پروانہ برطرفی تھما دیا، لیکن اٹارنی جنرل کی سفارش پر عدالت نے برطرفی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرکے معاملے کو معلق کر دیا۔

اٹارنی جنرل غالی بہارو میعارا کی جانب سے شاباک کی پشت پناہی حکمرانوں کیلئے نیا درد سر ہے۔ دوسری طرف فوج کیلئے غزہ کی دلدل گہری ہوتی چلی گئی۔ جرنیلوں نے نجی مجالس میں وزیر اعظم سے اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن ”فتح” کے گنبد میں بند نیتن یاہو کچھ سننے کو تیار نہ ہوا جس پر فوجی افسران اور سراغ رساں اداروں نے کھلے خط کی شکل میں اپنے خدشات اور تحفظات طشت از بام کردیئے۔ حکمران لیکوڈ اتحاد پھٹ پڑا اور سوشل میڈیا پر اپنے نام سے صاف صاف کہہ دیا کہ شاباک کے سربراہ رونن بار اور اٹارنی بہارو میارا نے سیکورٹی سروس کو ”گہری ریاست (Deep State)کی نجی ملیشیا” میں تبدیل کر دیا ہے جو قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے۔

شین بیت تحفظِ اسرائیل کے بنیادی کام کے بجائے اب صحافیوں کی پکڑ دھکڑ اور اور ان سے پوچھ تاچھ میں مصروف ہے۔ پولیس افسران اور حکومتی اہلکاروں کی بلیک میلنگ کے ساتھ وزرا اور ارکانِ پارلیمان کے خلاف تحقیقات کے کھاتے کھول دیئے گئے ہیں۔ لیکوڈ اتحاد کا کہنا ہے کہ شین بیت کے ریاست کے اندر ریاست بن جانے کی وجہ سے غزہ کی جیتی ہوئی جنگ شرمناک شکست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اختلافات کا یہ عالم کہ اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں۔ آج سیکورٹی کے حوالے سے ایک اہم اجلاس تھا۔ جس میں شاباک چیف بھی شریک تھا۔ مگر شدت پسند جنونی وزرا نے یہ کہہ کر شرکت سے معذرت کر لی کہ رونین بار کے ہوتے ہوئے ہم اس اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی اخبار ”ہآرتس”کے مطابق، منگل کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خلاف اور قیدیوں کی واپسی کے حق میں دستخط کرنے والوں کی تعداد صرف پانچ دن میں 110,000سے تجاوز کر گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج کی ریزرو فورسز میں احتجاج کی شدت سرکاری اعلانات سے کہیں زیادہ ہے۔ احتجاج کے نتیجے میں فوج نے غزہ میں لڑائی کے علاقوں میں تعینات ریزرو فوجیوں کی تعداد کم کرنے اور انہیں جاری کیے جانے والے احکامات کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن ریزرو فوجیوں نے احتجاجی عریضے پر دستخط کیے، ان کو برطرف کرنے کا فیصلہ سیاسی دباؤ کے تحت کیا گیا۔ آرمی چیف ایال زامیر کے اس فیصلے کہ” فضائیہ کے وہ ریزرو اہلکار جو احتجاج کا حصہ تھے، انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے” اس کا الٹا اثر ہوا، یعنی مزید بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہوا۔ کئی سینئر افسران کا ماننا ہے کہ ریزرو فوجیوں کی اپنی مہم پر عدم اعتماد سے فوجی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ فوج اب ریزرو فورسز پر کم انحصار کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ ریگولر یونٹس کو غزہ بھیج رہی ہے لیکن ان یونٹس کو بھی اطاعتِ احکامات میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اسرائیلی فوجی سربراہ ایال زامیر نے حالیہ عوامی دباؤ اور ریزرو فوجیوں کے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فوج میں اختلاف رائے کی دراڑیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ انہوں نے زور دیا کہ ریزرو فوجیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سویلین حیثیت میں اور خدمت سے باہرکسی بھی موضوع پر جمہوری طریقے سے اظہارِ رائے کریں۔ لیکن فوج کو احتجاج میں گھسیٹنا، کسی فوجی یونٹ کے نام پر بولنا، یا اجتماعی طور پر بیانات دینا، یہ سب کچھ غیر جمہوری اور ناقابلِ قبول ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایال زامیر نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جاری جنگ کا مقصد اسرائیل کا دفاع، قیدیوں کی بازیابی اور حماس کی شکست ہے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ میں اسرائیل نے3,60,000ریزرو فوجی غزہ بھیجے۔ حالیہ دنوں میں 6037افراد (فوج اور انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ)نے 17مختلف عریضوں پر دستخط کیے، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ قیدیوں کی واپسی کو جنگ کے خاتمے پر ترجیح دی جائے۔ 22,500 شہریوں نے بھی 10 عرضداشتوں پر دستخط کیے، جن میں وزیر اعظم نتن یاہو پر الزام لگایا گیا کہ وہ یہ جنگ ذاتی سیاسی مفادات کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں نا کہ قومی سلامتی کے لیے۔ یہ بغاوت نما احتجاج نہ صرف اسرائیلی فوج کے اندر ایک گہرے بحران کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ جنگ کے جواز اور قیادت پر اب خود اسرائیلی سوسائٹی میں بھی شدید سوالات اٹھنے لگے ہیں۔