رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
اہل غزہ پر بیتنے والے ہولناک واقعات کا دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والا انسان تصور نہیں کرسکتا۔ ایسے حالات کا عشر عشیر بھی کسی کے سر پر آئے تو وہ ہمت کھو بیٹھے۔ مگر غزہ والے پورے خاندان کو کھو دینے کے بعد بھی حوصلہ نہیں ہارتے۔ ساری اولاد کے جنازے اٹھا کر بھی ان کے پایہ ثبات میں لغزش نہیں آتی۔ یہ استقامت کے پہاڑ ہیں۔ صبر و برداشت کے پیکر ہیں۔ ایمان و یقین کی مجسم تصویر ہیں۔ یہ قرون اولیٰ کے بچھڑے ہوئے مسافر ہیں، جو اس دور فسوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ تقدیر کے ہر فیصلے پر راضی ہیں۔ ہر آزمائش کے لیے ہمہ وقت تیار۔ سفید ریش بزرگ ابراہیم ابو مہادی اس کی زندہ مثال ہیں۔ جن کے صبر و ثبات نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ان کے 6 بیٹے بمباری میں ایک ساتھ شہید ہوگئے۔ جن میں دس سالہ پھول بھی شامل اور خود بچوں کے باپ کڑیل جوان بیٹے بھی۔ جوان اولاد کی موت پر بوڑھے ماں باپ بکھر جاتے ہیں۔ ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے بستر سے لگ جاتے ہیں۔ مگر سرزمین انبیا ء کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں جنم لینے والے ابو مہادی نے صبر وتحمل کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اس کی نظیر ملنا محال ہے۔ استقامت کے اس پہاڑ نے خود ہی اپنے شہید بچوں کا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں انہیں لحد میں اتارا۔ ایسے ہی صابرین کاملین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو، جو مصیبت آنے پر کہتے ہیں، ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔(سور البقر: 155-156)۔
غزہ میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کی منظم نسل کشی کے دوران ہونے والے ہولناک جرائم اور قتل عام کے ان گنت لرزہ خیز واقعات ہیں کہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی کلیجہ پھٹتا ہے۔ ایسا ہی ایک اندوہ ناک اور دل خراش واقعہ ابراہیم ابو مہادی کے چھ جوان بیٹوں کی ایک ہی وقت میں درندہ صفت صہیونیوں کے ایک بزدلانہ حملے میں شہادت کا ہے۔ غزہ کے ہزاروں والدین اپنے ایک سے زیادہ بچوں کو ارض فلسطین پر قربان کرچکے ہیں مگر ابو مہادی کا دکھ اور صدمہ ما سوا ہے۔ پہاڑ جیسی استقامت اور صبر واستقلال کے کوہ گراں ابو مہادی نے اپنے چھ جوان بیٹوں احمد، محمود، محمد، مصطفی، ذکی اور عبد اللہ کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ نماز جنازہ میں شریک ہر آنکھ اشک بار تھی مگر بہادری اور صبرو ثبات کے پہاڑ ابو مہادی اپنے چھ بیٹوں کی شہادت پراپنے صدمے کو اندر ہی اندر چھپائے ہوئے تھے۔ ان کی زبان پر سوائے صبر و شکر کے کوئی کلمہ نہیں تھا۔
ابراہیم ابو مہادی پہاڑ کی طرح ثابت قدم کھڑے اپنے چھ بیٹوں کی نماز جنازہ ادا کر تے ہوئے بھی شہدائے فلسطین کے لواحقین کے لیے ایک مثال تھے۔ وہ ناقابل یقین صبر کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کی زندگی مشکلات سے بھرپور گزری، مگر جو صدمہ اور تکلیف انہیں چھ بیٹوں کی شہادت کی صورت میں پہنچی، وہ دیگر تمام تکالیف سے بھاری تھی۔ ان کے بڑھاپے کے سارے سہارے ایک ساتھ چھن گئے تھے۔ اس موقع پر ابو مہادی نے کہا کہ دیگر نوجوانوں کی طرح میرے بچوں کے بھی کچھ خواب تھے، مگر ہمارے خواب شہادت میں بدل گئے۔
خیال رہے کہ ہفتے کے روز صہیونی فوج نے غزہ کے علاقے دیر البلح میں ایک گاڑی پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں ابو مہادی کے چھ جوان اور ایک معصوم بیٹا عبد اللہ الھبش شہید ہوگئے تھے۔ اس گھناؤنے جرم نے ان کے اہل خانہ، دوستوں اور ان کے جاننے والوں کے دلوں میں گہرا درد اور غم چھوڑا ہے۔ سوگوار والد ابراہیم ابو مہادی نے اپنے چھ جوان بیٹوں کی شہادت پر شدید درد بھرے لہجے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس زندگی کی سب سے قیمتی چیز کھو دی ہے۔ میرا دل غم اور صدمے سے چور ہے، میرے جوان سال بیٹے میری امید اور میری تمنا تھے۔ وہ اپنے ملک کی تعمیر اور بہتر زندگی کا خواب دیکھتے تھے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اللہ کی مرضی ہے۔ اس عظیم نقصان کے باوجود مجھے یقین ہے کہ یہ شہدا اب جنت میں بہتر جگہ پر ہیں۔ ان کا خون ہمارے ملک کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب ثابت ہوگا اور ہر گز رائے گاں نہیں جائے گا۔
اپنے درد کو سینے میں چھپاتے ہوئے دکھی والد نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملہ بے رحمانہ، بزدلانہ اور غدارانہ تھا۔ بزدل دشمن نے ایک ایسی سول گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ پھر بھی اس نے میرے چھ بیٹے مجھ سے چھین لیے۔ لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے دل فخر سے سرشار ہیں۔ وہ مرے نہیں بلکہ شہید ہوئے۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے، جو بہت بڑے صبر اور برداشت کا تقاضا کرتا ہے۔
جب ابراہیم ابو مہادی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے اپنے بیٹوں کی میتوں کولے کر جا رہے تھے تو وہ ایک بے مثال صبر اور بے نظیر استقامت کا پہاڑ لگ رہے تھے۔ انہوں نے غم اور صدمے کو خود پر غالب نہیں آنے دیا حالانکہ ان کا کلیجہ چھلنی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بیٹوں نے اپنی جان اس ملک کے لیے دی ہے، جس سے وہ پیار کرتے تھے۔
باپ تو پھر بھی مرد ہونے کے ناطے صبر کرلیتا ہے، لیکن ماں!؟ ایک کمزور وجود! وہ بھی بڑھاپے کی عمر میں! مگر وہ حضرت خنسا رضی اللہ عنہا کی سچی جانشین ہیں۔ اس لیے وہ بھی اپنے شوہر کی طرح مثالی صبر کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ چھ جوان سال بیٹوں کی ایک ساتھ موت جیسے ہولناک سانحے کو کون سی ماں برداشت کر سکتی ہے؟ مگر غزہ کی یہ خنسا چہرہ اداس اور آواز درد سے بھر پور ہونے کے باوجود وہ صابر تھیں۔ درد بھرے لہجے میں انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ انہیں اپنے اچھے کاموں سے وطن سے محبت کا اظہار کرتے دیکھا۔ ان کے بڑے عزائم تھے، وہ قابض اسرائیلی جارحیت سے شہید ہوگئے مجھے ان پر فخر ہے کہ وہ ایک مقدس مقصد کے لیے شہید ہوئے۔ ہم صدمے میں ہیں، مگر ان کی شہادت پر فخر بھی کرتے ہیں۔ میں چھ شہید بچوں کی ماں بن گئی ہوں اور یہ اللہ کی طرف سے میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے بیٹوں نے ہمیشہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔ معاشرے کے تئیں کبھی کسی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹے۔ میں ہر فلسطینی سے کہنا چاہوں گی کہ یہ شہدا صرف میرے بیٹے نہیں بلکہ ہم سب کے ہیں، ان کی میراث ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ وہ جس پرچم کی سربلندی کے لیے شہید ہوئے، ہمارا فریضہ ہے کہ ہم بھی جان کی بازی لگا کر اس پرچم کو کبھی سرنگوں ہونے نہ دیں۔
غزہ میں سینکڑوںشہدا کے جنازے روز کا معمول بن چکے ہیں، مگر ان چھ حقیقی بھائیوں کی نماز جناز میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر چہرہ اداس اور ہر آواز بھرائی ہوئی تھی۔ ہر ایک شکستہ دل تھا، مگر ان کی شہادت نے صہیونی درندوں کے خلاف فلسطینیوں کی نفرت مزید بڑھا دی تھی۔ اس لیے جنازے کا جلوس مزاحمت کے نعروں سے گونج رہا تھا۔