رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
کل غزہ میں 7اکتوبر 2023 ء سے جاری نسل کشی کا 555واں دن تھا۔ 13,320گھنٹے، 799,200منٹ اور 47,952,000سیکنڈ سے غزہ مسلسل خون میں نہا رہا ہے۔ 555ویں روز مزید38 فلسطینی شہید اور 118زخمی ہوگئے۔ اب شہدا کی مجموعی تعداد بڑھ کر 50,983اور زخمیوں کی تعداد 116,274ہو گئی ہے۔ اسرائیلی جارحیت دوبارہ شروع ہونے کے بعد 1613فلسطینی شہید اور 4233زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل میں بھی تاریخ کے غیر معمولی بحران نے جنم لے لیا ہے۔
اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹوں کی جانب سے سروس سے انکار کی اپیل پر مبنی عرضداشت کا دائرہ فوج میں وسیع ہو رہا ہے اور یہ معاملہ اسرائیل میں شدت اختیار کر رہا ہے۔ اسرائیلی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق پیرا ٹروپرز اور انفنٹری یونٹس کے 1600سابق فوجیوں نے غزہ پر جاری جنگ کو روکنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی”موساد”کے 250سے زائد سابق اہلکاروں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ جنگ کے بجائے حماس کے قبضے میں موجود قیدیوں کی واپسی کو ترجیح دی جائے۔ اسرائیلی میگزین ”972”نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کو گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی سروس انکار کی مہم کا سامنا ہے، جہاں ایک لاکھ سے زائد اسرائیلیوں نے ریزرو سروس دینا بند کر دی ہے۔ ان میں سے بعض افراد اخلاقی بنیادوںپر غزہ کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے ایک فیصلے کی توثیق کی جس کے تحت جنگ ختم کرنے کی اپیل پر دستخط کرنے والے متعدد سینئر افسران اور 1000ریزرو فوجیوں کو فوج سے فارغ کر دیا گیا۔
اسرائیلی معاشرہ میں تقسیم
اسرائیلی فوجیوں اور کمانڈروں کی جانب سے حالیہ عرضداشتیں حکومت بالخصوص وزیرِ اعظم یتن یاہو کے لیے ایک غیر معمولی بحران کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ یہ عرضداشتیں نہ صرف سیاسی اور سیکورٹی دبا ؤپیدا کر رہی ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے ہوئے داخلی اختلافات کو بھی اجاگر کر رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی معاشرے خاص طور پر اس کی فوج میں اس طرح کی تقسیم یہودی ریاست پر ضرب ہے۔ یہ اختلافات اسرائیلی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں جو پہلے ہی انتہا پسند مذہبی عناصر اور سیکولر لبرل طبقے کے درمیان تقسیم کا شکار ہے اور یہ سب اسرائیل میں شناختی بحران کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے مظاہرے حکومت کی عوامی مقبولیت کو ختم اور اس کی پالیسیوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیلی عدلیہ نے داخلی سلامتی کے ادارے شاباک کے سربراہ رونین بار کو برطرف کرنے کے حکومتی فیصلے کو روک دیا، کیونکہ اس میں نیتن یاہو کے ذاتی مفادات اور اس کے دفتر کے افراد پر بدعنوانی کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
فمید میڈیا فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ابراہیم المدہون اسرائیلی منظرنامے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں، جو کہ حکومت کے خلاف مظاہروں کی تاریخ پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کے خلاف مسلسل مظاہروں نے ثابت کیا ہے کہ یہ مظاہرے پریشان کن ہیں، مگر وہ فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ مظاہرے سیاسی منظرنامے میں توازن پیدا کرتے ہیں اور انتہا پسند دائیں بازو کو مزید متحد ہو کر اپنی پالیسیوں پر ڈٹے رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو میں المدہون نے اسرائیلی معاشرے کے اندر موجود دو مختلف قسم کے احتجاجات کے درمیان فرق واضح کیا کہ ایک عوامی مظاہرے، جو ذاتی مفادات یا جماعتی سیاسی تنازعات سے جنم لیتے ہیں۔ یہ میڈیا میں تو نمایاں ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل اثر محدود ہوتا ہے کیونکہ ایک منظم صہیونی بلاک موجود ہے جس کی قیادت ایتمار بن گویر اور بتسلئیل سموترچ جیسے جنونی رہنما کر رہے ہیں، جو ان مظاہروں کو جذب کرنے اور ان کے اثرات زائل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ دوسرا سیکورٹی اداروں کے اندر احتجاج،یہ مظاہرے حقیقی معنوں میں فیصلہ سازوں پر دبا ؤڈال سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ حکومت کو مخالف فیصلے کرنے پر بھی اکساتے ہیں۔ نیتن یاہو اور اس کے اتحادی ان مظاہروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ سیکورٹی اداروں پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنائی جا سکے۔ اسرائیلی فوجی ادارے میں جاری حالیہ احتجاج نیتن یاہو کو درپیش ان بحرانوں کی انتہا ہے، جو اس نے غزہ پر حملے کے آغاز سے اب تک برداشت کیے ہیں۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق فوجی سربراہ نے حکومتی وزارتی کمیٹی کو مطلع کیا ہے کہ فوج کو لڑنے والے اہلکاروں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ تاہم، نیتن یاہو کا روایتی رویہ ہمیشہ سے انکار، حقائق سے پہلوتہی اور اپنی پالیسیوں یا جنگی طریقہ کار کی مخالفت کو نظرانداز کرنے پر مبنی رہا ہے۔ وہ بڑے بحرانوں سے نمٹنے کے بجائے انہیں گھما پھرا کر، مختلف محاذوں پر بیک وقت بڑے بڑے” کارنامے” پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ داخلی سطح پر بڑھتے ہوئے بحران سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
ابراہیم المدہون کا کہنا ہے کہ حالیہ احتجاج غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کے مسئلے اور جنگ کے دیگر پہلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لیکن ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ فیصلہ کن تبدیلی لائیں۔ ایسے احتجاج صرف اس صورت میں بڑے فیصلے کا محرک بن سکتے ہیں جب ان کے ساتھ بین الاقوامی یا امریکی دباؤ ہوگا، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے تحت پہلے جنگ بندی معاہدے کے دوران ہوا تھا۔
ماضی کے تجربات سے یہ واضح ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدہ صرف امریکی دبا ؤکے نتیجے میں کیا تھا اور حالیہ دنوں میں اگرچہ بیرونی دباؤ موجود ہے، لیکن وہ ابھی تک اتنا طاقتور نہیں کہ اسرائیل کے فیصلوں پر بڑا اثر ڈال سکے۔ تمام تجزیہ کار اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیلی فوج میں جاری احتجاج نیتن یاہو کے لیے ایک نیا بحران بن سکتا ہے، اور ممکنہ طور پر ان مظاہروں کے نتیجے میں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی طرف پیشرفت ہو سکتی ہے، تاکہ باقی اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرایا جا سکے۔ تاہم، وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ نیتن یاہو نے تاریخ میں کئی بار احتجاج کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے یا کم از کم اس کی شدت کو کم کیا ہے۔ وہ یہ کام فوری طور پر حاصل کردہ کامیابیوں کے اعلانات کے ذریعے کرتا ہے یا احتجاج کرنے والے رہنماؤں کو سیاسی سطح پر کمزور کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو مضبوط یہودی انتہاپسندوں کی حمایت پر انحصار کرتا ہے جو اس کی پالیسیوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے وہ سیاسی مشکلات سے نکلنے میں کامیاب رہتا ہے۔