اے سرزمینِ انبیاء! ہم شرمندہ ہیں

رپورٹ: مولانا محمد یونس الحسینی
مشرقِ وسطیٰ میں واقع تقریباً27,024مربع کلو میٹر پرمشتمل سجدہ گاہِ مصطفی، انبیاء کی سرزمین، غزہ فلسطین تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کی مٹی میں انبیاء کرام کی دعائیں دفن ہیںاور یہاں کی فضاؤں میں صدائیں سنائی دیتی ہیں جو عدل و انصاف کی گواہی دیتی ہیں لیکن افسوس کہ آج یہ سرزمین ظلم و ستم کا شکار ہے۔ فلسطینی عوام اپنی آزادی، اپنی سرزمین اور اپنی شناخت کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔

فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے جو نہ صرف اہم جغرافیائی حیثیت رکھتی ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ بیت المقدس، وہ مقام ہے جہاں انبیاء نے سجدے کیے، آج دشمن کے ناپاک قدموں تلے روندی جا رہی ہے اور ہم بے حسی کی چادر اوڑھے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ آج دنیا بھر میں فلسطین کے مسئلے پر بحث ہوتی ہے، قراردادیں منظور ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ عالمی طاقتیں اپنی مفادات کی خاطر فلسطینی عوام کی قربانیوں کو نظرانداز کرتی ہیں۔ یہ خاموشی اور بے حسی ہمیں شرمندہ کرتی ہے۔ آج ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم نے فلسطین کے بچوں کو گولیوں کا شکار ہوتے دیکھا، ماؤں کو جنازوں کے پیچھے روتے دیکھا، نوجوانوں کو پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے دیکھا مگر ہم خاموش رہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر پوسٹیں تو کیں، ریلیاں بھی نکالیں لیکن جب وقت آیا کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھاتے، ہم پیچھے ہٹ گئے۔ ہم تو وہ امت ہیں جنہیں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا۔ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو، تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے لیکن فلسطین کے زخموں پر ہماری بے حسی، ہماری مردہ ضمیر کی گواہی دے رہی ہے۔

اے ارضِ فلسطین! تو وہ زمین ہے جس پر انبیاء کے قدموں کے نشان ہیںجہاں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب قدم رکھا۔ تو وہ قبلہ اول ہے جس کی آزادی کے لیے صلاح الدین ایوبی کی تلوار نے صدیوں پہلے تاریخ رقم کی۔ ہم تیرے شہیدوں کی قربانیوں کے مقروض ہیں، تیرے بچوں کی چیخیں ہمیں جھنجھوڑتی ہیں مگر ہم دنیاوی مفادات کے شکنجے میں جکڑ گئے، ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ تیری پکار سننے سے قاصر ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں کیونکہ ہم امتِ مسلمہ کا وہ کردار نہ ادا کر سکے جس کی توقع تُجھ کو ہم سے تھی۔ ہم نے اتحاد کا درس بھلا دیا، ہم نے اخوت کا دامن چھوڑ دیا، ہم نے صرف مذمتوں پر اکتفا کیا اور یوں تیرے زخموں کو تنہا چھوڑ دیا۔ اے استقامت اور غیرت کی علامت! ہم تجھ سے شرمندہ ہیںکہ تیری خاک پر برسوں سے خون بہتا رہا اور ہم فقط دعاؤں کے سہارے تیری نصرت کے خواب دیکھتے رہے۔ تم دن رات ظلم سہتے رہے، تمہارے بچے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے رہے، تمہاری عورتیں سجدوں میں شہید ہوتی ہیں، تمہاری مائیں اپنے لختِ جگر کی لاشوں کو اٹھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں۔ اے غزہ کے غیور لوگو!تم وہ ہو جو دنیا کے بڑے بڑے سامراج کے سامنے ڈٹے ہو، تم وہ ہو جنہوں نے ہمیں غیرت، ایمان، قربانی اور جہاد کا مطلب سمجھایا۔ تم نے جو صبر دکھایا، وہ حضرت ایوب کی یاد دلاتا ہے۔ تمہاری للکار سیدنا خالد وضرار کی یادیں تازیں کرتی ہیں، تم نے جو قربانیاں دیں وہ سیدنا حضرت حسین کے نقشِ قدم پر چلنے کی دلیل ہیں۔ تمہاری سرزمین آج بھی خون سے سرخ ہے مگر تمہارا حوصلہ سبز چمن کی مانند ہے۔

اے ارضِ انبیاء کے وارثو! تمہاری استقامت، تمہاری قربانیاں اور تمہارا ایمان، تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف میں لکھا جا رہا ہے۔ تمہارے زخمی جسم اور صبر سے لبریز دل پوری امت مسلمہ کے ضمیر پر دستک دے رہے ہیں۔ تم نے اپنا حق مانگا مگر تمہیں گولیوں سے نوازا گیا۔ تم نے آزادی کا نعرہ بلند کیامگر تمہیں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تمہارے گھروں کو منہدم کیا گیا، تمہاری ماؤں کی گودیں اجاڑ دی گئیں مگر تم نے ہار نہ مانی لیکن اے اہلِ فلسطین! تم یقین رکھو تم کامیاب ہو، تمھاری آنکھوں میں چمک، تمھاری پیشانیوں پہ سجدے، تمھاری زبانوں پر اللہ اکبرکے نعرے یہی تمھاری جیت ہے۔ اے اقصیٰ کے پروانو! ہمیں معاف کرنا کہ ہم تمہارے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکے، ہم تمہاری چیخیں نہ سن سکے، ہم اپنے اقتدار، اپنے آرام، اپنے سکون سے باہر نہ نکل سکے۔ تمھارے بچوں کے لاشے اٹھتے رہے اور ہم نے سوشل میڈیا پر صرف پوسٹس لگائیں۔ تمھاری ماؤں کی آہیں آسمان تک پہنچ گئیں اور ہم نے کانوں میں انگلیاں دے لیں۔ تمھارے جوانوں نے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کیا اور ہم نے صرف دعاؤں پر اکتفا کیا۔ ہمیں معاف کرنا کہ جب تمہارے بچے گولیوں سے چھلنی ہو رہے تھے، ہم کھیلوں میں مصروف تھے۔ جب تمہاری بیٹیاں سروں سے چادر کھینچے جانے پر رو رہی تھیں، ہم اپنی تقریروں میں الفاظ کے تیر برسا کر سمجھے کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔ ہم نے تمھاری تکلیف کو صرف ”خبر” سمجھا، تمھاری شہادت کو صرف ویڈیو میں دیکھااور تمھاری جدوجہد کو صرف ٹریند بنا کر سمجھ لیا کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔ اے بیت المقدس کے سپاہیو! تمہارے لہو کی ہر بوند ہم سے سوال کرتی ہے، کہاں ہیں وہ جو ہمیں اپنا بھائی کہتے تھے؟ کہاں ہیں وہ جو ایک جسم کی مانند ہونے کا دعویٰ کرتے تھے؟ اے اقصیٰ ہمیں معاف کرنا کہ ہم نے تیرے بیٹوں کی لاشوں پر سیاست کی، تیرے لہو کو اپنی تقریروں کی زینت بنایا اور پھر اپنے آرام دہ گھروں میں لوٹ آئے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر تصویریں تو شیئر کیں، ہیش ٹیگز تو بنائے لیکن عملی میدان میں کبھی قدم نہیں رکھا۔

اے فلسطین! تو نے اپنے جری بیٹوں اور باحیا بیٹیوں کے خون سے مزاحمت کی ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ساری دنیا حیران ہے۔ تیری ماؤں نے جنازے اٹھائے مگر حوصلہ نہ ہارا، تیرے بزرگوں نے قید و بند کی صعوبتیں سہے لیکن سر نہیں جھکایا۔ ہمیں معاف کرنا کہ ہم تیری قربانیوں کے وارث بننے کے لائق نہ رہے مگر اے فلسطین! تیری جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔ ظلم کی یہ رات چاہے کتنی ہی طویل ہو، طلوع سحر ضرور ہو گی۔ اور وہ دن ضرور آئے گا جب تیری گلی کوچے امن و آزادی کے نغموں سے گونجیں گے۔ بیت المقدس میںپھر سے اذانیں بلند ہوں گی اور تیری زمین کو آزاد فضاؤں کا لمس نصیب ہو گا۔

اے اہلِ فلسطین! ہم شرمندہ ہیں، ہم نادم ہیں۔ ہم تمہارے درد کو سمجھنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر تمہارے ساتھ کھڑا ہونے کا حق ادا نہ کر سکے لیکن آج ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جاگیں گے، ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے، ہم اپنے قلم، زبان، کردار اور عمل سے تیرے حق میں آواز بلند کریں گے۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے، تمہارے لہو کا مقدمہ ہم ہر محفل، ہر فورم، ہر دل میں لڑیں گے اور وہ دن دور نہیں جب تمہارے باسیوں کو آزادی کا سورج نصیب ہوگا اور تمہارے بچے بے خوف ہو کر کھیلیں گے لیکن اے ارضِ فلسطین! تیرے حق میں اُٹھنے والی ہر صدا، ہر آہ، ہر آنسو گواہ ہے کہ تو تنہا نہیں۔ وقت آئے گا جب امت بیدار ہوگی، جب تیرے زخموں پر مرہم رکھا جائے گا، جب تیرے مظلوم بچوں کو انصاف ملے گا اور جب مسجد اقصیٰ سے پھر اذانِ حق بلند ہوگی۔

اے ملت اسلامیہ کے نوجوانو! اب بھی وقت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں۔ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، یہ پوری امت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں صرف مظلوموں کے آنسو نہیں، ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ہم لاچار نہیں مگر بے عمل ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس زبان ہے مگر سچ کہنے کی جرأت نہیں، ہاتھ ہیں مگر عمل سے خالی، دل ہیں مگر ایمان سے خالی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جاگیں، اپنے کردار پر نظرثانی کریں، اتحاد کا دامن تھامیں، اور کم از کم اپنی دعا، قلم اور آواز سے ان مظلوموں کا ساتھ دیں۔