اسرائیلی سفاکیت اور دنیا کی بے حسی

رپورٹ: عرفان احمد عمرانی
غزہ میں اسرائیلی بمباری وتباہی انسانی تاریخ کا سب سے المناک المیہ ہے ،ظالم اسرائیل نے امریکی سرپرستی میں فرعونیت ،نمرودیت اور چنگیزیت کو بھی شرما دیا ،انسانی حقوق کے عالمی قوانین بھی روند ڈالے ،اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل کے منہ پر طمانچے دے مارے، عالمی اداروں کے انسانی حقوق کے منشور بارود میں اڑا دیے ہیں، گھروں، ہسپتالوں اسکولوں ومساجد پر صہیونی بمبار سے تباہ ہونے سے غزہ مٹ کر رہ گیا ہے، ہم بحیثیت مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں ،بچوں بوڑھوں، خواتین ،معصوم بچیوں کی پکار تک نہیں سن پا رہے ،کوئی غزہ کی تباہی کو دیکھنا ہی گوارا نہیں کر رہا، اکتوبر 2023ء سے اب تک لاکھوں فلسطینیوں کو شہید وبے گھر کر دیا گیا ،معصوم بچوں پر بمباری کر کے مسلمانوں کی نسل کشی کی انتہا کر دی گئی مگر انسانی حقوق کے ٹھیکے دار ممالک اورمسلم حکمران آنکھیں بند کر کے اپنی مستی میں مگن ہیں ، غزہ کے بچے قربان ہو رہے ہیں ، ان کے جسموں کے اعضا بکھر رہے ہیں ، عرب ریاستوں کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھ کر اپنی حکمرانی بچائے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی خاموشی ان کے تحفظ کا باعث بنے گی ،خدشہ ہے کہ فلسطین کے بعد یہو د ونصاری جیسا دشمن کسی بھی اسلامی ملک کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا ۔

پاکستان میں دینی جماعتوں کے قائدین اور عوام تو اپنے فلسطینی بھائیوں پر ظلم کے خلاف میدان میں احتجاج کر رہے ہیں،مگر ملک کی سیاسی جماعتوں کو کوئی غم نہیں،مسلم لیگ ن وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ دوسری پارٹیوں کو نیچا دکھانے اور حکومت کو زبردستی چلانے کی فکر میں ہے، پیپلز پارٹی دریائے سندھ کی نئی نہروں پر سیاست کر رہی ہے ،پی ٹی آئی خود گروپنگ کے ساتھ انتشار کا شکار ہے اس کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، سیاسی جماعتوں نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم، اسرائیلی سفاکیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔

غیر مسلم ممالک کے عوام فلسطینیوں کے حق میں احتجاج پر احتجاج کر رہے ہیں، غزہ کو مٹانے اس پر قبضہ کا خواب دیکھنے والے ٹرمپ کے ملک امریکا میں بھی عوام اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر آگئے مگر عرب ممالک میں کوئی بھی احتجاج تک کے لیے تیار نہیں، اسرائیل کے قریبی عرب ممالک سے اسرائیل کو سپلائی لائن جاری ہے مگر فلسطینیوں کے لیے امداد کو راستہ تک نہیں مل رہا ،اسرائیل کی بدمعاشی نے غزہ کو تباہ کر دیا ، کوئی عرب ملک کا بادشاہ اور وزیرلب کشائی تک نہیں کررہے، عرب لیگ اوراو آئی سی بھی اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار نہیں،صرف پاکستان اور بنگلا دیش کے عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ہم اسرائیل امریکا مردہ باد کے نعرے تو لگا رہے ہیں مگر ان دشمنان اسلام ممالک کو اقتصادی ومعاشی طور پر مردہ کرنے کے لیے عملی قدم نہیںاٹھارہے، کہنے کو تو امریکی، اسرائیلی، یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کے اعلانات اور مہم بھی چل رہی ہے مگر عملی بائیکاٹ کہیں نظر نہیں آرہا، یہودی فوڈز ادارے روزانہ مسلمانوں سے بھرے نظر آرہے ہیں، مشروبات اور دیگر فوڈز آئٹمزکی دھڑلے سے فروخت جاری ہے، زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ پاکستان یہودی مصنوعات کی بڑی منڈی بن کر رہ گیا ہے، پاکستانی ملکی مصنوعات کے بجائے اسرائیلی، امریکی، یورپی مصنوعات کااستعمال کرنے میں سب سے آگے ہیں، ہم ہی ہیں کہ یہودی طاقتوں کو اقتصادی طور پر مضبوط کر رکھا ہے، صہیونی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے تو اسرائیل کو کمزور اور اس کی اقتصادی معاشی کمرتوڑی جا سکتی ہے،

پاکستان کسی نہ کسی طور پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتا آ رہا ہے، گزشتہ ہفتے ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کانفرنس میں مظلوم فلسطینیوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ، کراچی میں بھی اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے مولانا فضل الرحمان کاولولہ انگیز خطاب قابل توجہ ہے ۔مولانا کے جلسے میں کراچی امڈ آیا جس نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کا حق ادا کر دیا ،مولانانے 27اپریل کو مینار پاکستان پر فلسطین کانفرنس کا اعلان کر کے پنجاب کے کارکنوں میں نیا جوش پیدا کردیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے علیحدہ ملین مارچ نے بھی اسرائیل کے خلاف 22اپریل کو ہڑتال کا اعلان کردیا ، گزشتہ دنوں اسلام اباد میں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ فلسطین کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیلی مظالم بند کرائے جائیں، اتحاد امت کانفرنس میں فلسطین کی حالت زار اور اسرائیل کی مسلسل بمباری پر شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی نے فکر انگیز خطاب میں مسلمان مسلم حکمرانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ،اعلان کیا کہ حکومت پاکستان سمیت تمام اسلامی حکومتوں پرجہاد فرض ہو چکا ہے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا درمندانہ خطاب صرف حکومت پاکستان نہیں پوری امت اور مسلم حکمرانوں کی غیرت جگانے کے لیے انتہائی اہم ہے، اب صرف زبانی جمع خرچ سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتے۔

مفتی تقی عثمانی مزید فرماتے ہیں کہ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہے، اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے۔لاکھوں اسرائیلی خاندان خیراتی اداروں کے کھانوں پر زندگی گزارنے پر مجبورہیں،55ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟۔ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، بانی پاکستان نے اس کو ناجائز بچہ قرار دیاتھا ، ہمارا موقف کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا چاہے اسرائیل کے پاس جتنی مرضی طاقت آجائے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا اسرائیل کے ساتھ جب کوئی معاہدہ نہیں تو کوئی عذر نہیں ،جب اسرائیل معاہدے توڑ چکا ہے تو پھر کون سے معاہدے کی قید ہے؟۔

اسلام آباد میں سنی علما کونسل کے زیر اہتمام عظیم الشان غزہ مارچ کیا گیا جس میں مولانا اورنگزیب فاروقی ودیگر علما کے ولولہ انگیز خطاب دنیا میں 57اسلامی ممالک کے حکمران، وہاں کے دینی رہنماؤں، خطبا کرام، مسلمان دانشوروں ،اسلامی ممالک کے میڈیا کے لیے قابل توجہ ہیں،یہ حقیقت ہے کہ آج ہم نے ایمانی غیرت کا ثبوت نہ دیا اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے میدان میں نہیں آئے تو خدشہ ہے کہ کہیں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا وبال ہم پر نہ پڑ جائے ،اس سے پہلے کہ سنبھلنے کا موقع نہ ملے، تمام عالم اسلام اسرائیل اور امریکا کے خلاف اٹھ کھڑاہو۔