ایران میں پاکستانیوں کا قاتل کون؟بڑا انکشاف

اسلام آباد:ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سیستان میں قتل ہونے والے 8 پاکستانی مزدوروںکی لاشوں کی واپسی میں آٹھ سے دس دن تک لگ سکتے ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس المناک واقعے پر ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور جیسے ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔

ایرانی سفارتی ذرائع کابھی کہنا ہے کہ لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگ سکتے ہیں کیونکہ جائے وقوعہ دور دراز علاقے میں واقع ہے اور قانونی و فارنزک تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانہ مسلسل ایرانی حکام سے رابطے میں ہے اور تمام توجہ لاشوں کی جلد واپسی پر مرکوز ہے۔یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

ادھرمقتولین کے لواحقین شدید غم میں مبتلا ہیں۔ احمدپورشرقیہ میں ایک جاں بحق شخص کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا واپس آرہا تھا مگر ظالموں نے میرے غریب بیٹے کو مار ڈالا۔ اْس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

آٹھ پاکستانی مزدوروں کے بے رحمانہ قتل پر ایرانی سفارتخانے نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ سفارتخانے نے سیستان صوبے میں پیش آنے والے اس اندوہناک سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردی اس خطے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور شرپسند عناصر خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے مسلسل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔سفارتخانے نے واضح کیا کہ ایسے عناصر کا مقصد پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرنا ہے لیکن دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔

بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس لعنت کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے۔ایرانی سفارتخانے نے سرکاری طور پر آٹھ پاکستانیوں کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات جاری ہیں اور ایرانی حکام پاکستانی سفارتخانے سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔

ادھرسیکورٹی ذرائع کے مطابق اس خونریز حملے میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جو ایران میں اپنے مضبوط نیٹ ورک اور محفوظ پناہ گاہوں کے باعث برسوں سے سرگرم ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستانی مزدوروں کو ایران کی سرزمین پر نشانہ بنایا گیا ہو۔ گزشتہ برس جنوری میں بھی ایرانی صوبے سیستان میں ایک حملے کے دوران متعدد پاکستانی مزدوروں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان نے آپریشن ”مرگ بر سرمچار” کے تحت ایران میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔

تاہم حالیہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران ان دہشت گرد تنظیموں کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دلخراش واقعہ نہ صرف ایرانی سرزمین پر سیکورٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آیا ایران غیر ملکی باشندوں، خاص طور پر پاکستانی مزدوروں کی جان و مال کے تحفظ کو سنجیدہ لیتا بھی ہے یا نہیں۔

دفاعی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے عالمی برادری کی خاموشی پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو انسانی حقوق کے بین الاقوامی علمبردار اور قوم پرست تنظیمیں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے میں ایک لمحہ ضائع نہ کرتیں۔

ایک دفاعی تجزیہ کار نے تلخ سوال اٹھایا کہ کیا پاکستانی مزدوروں کا خون اتنا سستا ہے کہ ان کے قاتلوں کی مذمت تک کرنے کی جرات بھی دنیا نہیں کر رہی؟ کیا ایران جیسے ملک کو غیر ملکی محنت کشوں کی سیکورٹی کی کوئی فکر نہیں؟’