سرنگوں کی تباہی،اسرائیل حماس میں کشیدگی،جنگ بندی معاہدے کو خطرہ

غزہ/لندن/تل ابیب /واشنگٹن:غزہ میں تمام سرنگیں تباہ کرنے پر اصرار کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان کشیدگی ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے۔

رفح اور خان یونس کے زیرِ زمین سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوئوں کا مسئلہ اب جنگ بندی کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق ثالث ممالک شرم الشیخ میں طے پانے والے فائر بندی معاہدے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے سرگرم ہیں جبکہ مصر ان سرنگوں میں پھنسے حماس کے عناصر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

قاہرہ الاخباریہ کے مطابق یہ سرنگیں رفح کے اس علاقے میں واقع ہیں جو اسرائیلی کنٹرول کے اندر یلو زون کہلاتا ہے۔یہ نیا بحران جو اب اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں کے اندر موجود حماس کے جنگجوئوں سے جڑا ہے، فائر بندی معاہدے کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے اور اگر حل نہ نکلا تو صورت حال ایک بار پھر نقط آغاز پر واپس جا سکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ مصری سیاسی قیادت جنگ بندی کے تسلسل کے لیے سرگرم ہے تاکہ غزہ کی بحالی کے منصوبے کے اگلے مراحل تک پہنچا جا سکے۔

ادھرحماس نے کہا ہے کہ غزہ کے علاقے رفح میں حماس کے چھپے ہوئے اور زیرِ زمین مزاحمت کار اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، گروپ نے اتوار کے روزثالثین پر زور دیا کہ وہ اس بحران کا حل تلاش کریں جس سے ایک ماہ پرانی جنگ بندی کو خطرہ ہے۔

مصری ثالثین نے تجویز پیش کی تھی کہ محفوظ راستے کے عوض رفح میں موجود مزاحمت کار اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں اور وہاں موجود سرنگوں کی تفصیلات دیں تاکہ انہیں تباہ کیا جا سکے۔

القسام بریگیڈز نے اتوار کے بیان میں مزاحمت کاروں کی مشغولیت کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا جو اس کے مطابق اپنا دفاع کر رہے تھے۔”دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں ہے۔

دریں اثناء اسرائیل کی طرف سے غزہ کے100سے زائد فلسطینیوں کو رکفیت جیل میں زیر زمین رکھنے کا انکشاف ہوا ہے جہاں وہ نہ کبھی سورج کی روشنی دیکھ پاتے ہیں، نہ مناسب خوراک ملتی ہے اور نہ ہی اپنے اہل خانہ یا باہر کی دنیا کی خبریں حاصل کر سکتے ہیں۔

برطانوی اخبار کی خصوصی رپورٹ کے مطابق رکفیت جیل کو 1980 ء کی دہائی میں انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں غیر انسانی ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ 7 اکتوبر 2023 ء کے حملوں کے بعد اسرائیل کے سیکورٹی وزیر ایتامار بن گویر نے اسے دوبارہ فعال کر دیا۔ جیل کے تمام حصے زیر زمین ہیں، جس کی وجہ سے قیدیوں کو قدرتی روشنی نہیں ملتی۔

وکلا کے مطابق قیدیوں کو چھوٹے سیلز، محدود ورزش کی جگہ اور کمزور طبی سہولیات میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں روزانہ تشدد، کتوں کے حملے، پابندیاں اور قلیل خوراک دی جاتی ہے۔ قیدی دن میں صرف چند منٹ باہر نکل سکتے ہیں اور کئی قیدیوں کو 9 ماہ سے سورج کی روشنی نہیں دیکھنے دی گئی۔

جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے بند نہ ہوئے اور8اکتوبر2023 ء سے اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد69 ہزار سے اوپر چلی گئی ہے۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملے میں تباہ ہونے والی عمارتوں اور دیگر مقامات کے ملبے میں دبی فلسطینیوں کی لاشوں کی تلاش کا عمل جاری ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے مزید 15 فلسطینی قیدیوں کی میتیں فلسطینی حکام کے حوالے کر دی ہیں۔ جواب میں حماس نے ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے کی، غزہ میں رہ جانے والے یرغمالیوں کی لاشوں کی تعداد 5 رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ لبنان پر بھی اسرائیل کے حملے جاری ہیں جس میں 3 افرادجاں بحق ہوئے۔

ادھراسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیاہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے طاقت کے ساتھ زبردستی کام جاری رکھے گا جب تک تمام ہلاک قیدیوں کو بازیاب نہیں کر لیا جاتا اور آخری سرنگ کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔

اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2014 ء کی غزہ جنگ میں ہلاک ہونے والے افسر لیفٹیننٹ ہدار گولڈن کی باقیات ہر صورت واپس لائیں گے۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ حماس نے مبینہ طور پر گولڈن کی لاش کا مقام تلاش کر لیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے حماس اور ریڈ کراس کو اجازت دی تھی کہ وہ اسرائیلی کنٹرول والے علاقے میں تلاش کا عمل مکمل کریں۔ایک اسرائیلی عہدے دار نے ایک امریکی ذمے دار کی جانب سے دیے گئے اس بیان کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوج کے زیر قیادت رابطہ مرکزاسرائیل کی جگہ لے کر غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی انسانی امداد کا نگران بنے گا۔

مذکورہ رابطہ مرکز غزہ سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر عمل درآمد کا ذمے دار ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی عہدے دار نے کہا کہ امریکی فورسز اسرائیل کے ساتھ مل کر غزہ میں امداد کی ترسیل اور اس کے انتظام و انصرام کی نگرانی میں شریک ہیں۔

ادھرغزہ کی پٹی میں دو برس کی خون ریز جنگ کے بعد پانچ سابق امریکی ذمے داران نے ایک اہم انکشاف کیا ہے۔ ان ذمے داران کے مطابق امریکا نے گزشتہ سال ایسی خفیہ معلومات جمع کیں جن سے ظاہر ہوا کہ اسرائیلی فوج کے قانونی مشیروں نے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی بعض کارروائیاں، جو امریکی ساختہ ہتھیاروں سے کی گئیں جنگی جرائم کے الزامات کو تقویت دے سکتی ہیں۔

امریکی ذمے داران کے مطابق یہ معلومات امریکی فیصلہ سازوں کے لیے حیران کن تھیں کیونکہ انھوں نے اشارہ دیا کہ اسرائیلی فوج کے اندر ہی اپنی کارروائیوں کی قانونی حیثیت پر شکوک پائے جاتے ہیں۔ یہ اسرائیل کے سرکاری موقف سے متصادم بات تھی جو ہمیشہ اپنی کارروائیوں کا دفاع کرتا آیا ہے۔

دو امریکی ذمے داران کے مطابق یہ معلومات وسیع سطح پر اس وقت سامنے آئیں جب سابق صدر جو بائیڈن کے اقتدار کے آخری مہینوں دسمبر 2024ء میں کانگریس کو بریفنگ سے قبل ان کا اشتراک کیا گیا۔

امریکی حکام نے بتایا کہ شہریوں کی زیادہ ہلاکتوں نے قانونی خدشات کو بڑھایا کہ شاید اسرائیل کی کارروائیاں بین الاقوامی انسانی قوانین کے معیار پر پوری نہیں اتر رہیں تاہم ان خفیہ رپورٹوں میں ان مخصوص واقعات کی نشان دہی نہیں کی گئی جن کے سبب اسرائیلی مشیر تشویش میں مبتلا ہوئے۔