اسلام آباد/تہران/استنبول:نائب وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور ایرانی وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا، اس دوران دوطرفہ تعلقات،علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے پاک ایران تعلقات کے فروغ کے عزم کا اعادہ کیا، ایرانی وزیرِ خارجہ نے پاکستان اور افغانستان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے اور اختلافات کے پرامن حل پر زور دیا۔
ایران نے پاک افغان کشیدگی میں کمی اور خطے کے استحکام کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایرانی ہم منصب کو پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات پر بریفنگ دی۔
ایرانی وزیرِ خارجہ نے دونوں برادر، ہمسایہ اور مسلم ممالک کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے اور مزید گہرا کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہے۔
عباس عراقچی نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ دونوں ممالک کو علاقے کے مؤثر ممالک کے تعاون سے اختلافات کے حل اور تناؤ میں کمی کے لیے مسلسل مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں ایران کی مکمل معاونت فراہم کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔دونوں وزرائے خارجہ نے ان امور پر مشاورت کے تسلسل پر اتفاق کیا۔
ادھرترک صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے وزیرِ خارجہ حکان فیدان، وزیرِ دفاع یشار گولر اور انٹیلی جنس چیف ابراہیم کالن اگلے ہفتے اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات چیت کی جا سکے۔
صدر اردوان نے یہ اعلان اتوار کے روز آذربائیجان سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی برقرار رہنا خطے کے امن و استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دوسری جانب دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں7نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی/ فتنة الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔
افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔

