سابق امام مسجد نبوی شیخ حذیفی کا یادگار خطبہ اور آج کے حالات

گزشتہ سے پیوستہ:
انہوں نے کہا کہ یہود و نصارٰی اسلام اور مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں۔ پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری اور مشرکین کے ساتھ دوستانہ تعلقات سے قرآن کریم میں واضح طور پر منع کیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرہ عرب سے یہود و نصارٰی کو نکال دینے کا حکم دیا ہے لیکن آج امریکا اور برطانیہ کی افواج نہ صرف جزیرہ عرب میں موجود ہیں بلکہ عرب ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیج عرب کو یہود و نصاری کے وجود سے پاک کرانا ہمارے دینی واجبات میں سے ہے اور اس کے لیے دنیا بھر کے مسلمان، عوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سعودی بھائیوں کا ساتھ دیں۔

انہوں نے ”وحدت ادیان” اور مختلف مذاہب کے درمیان قرب پیدا کرنے کے تصور کا بطور خاص نوٹس لیا اور کہا کہ یہودیت، عیسائیت، ہندو ازم، اور دیگر مذاہب کے ساتھ اسلام کا بنیادی اختلاف عقائد اور ایمانیات کا اختلاف ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ مفاہمت اور قرب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے پاس اصل سرمایہ ان کا ایمان اور عقائد ہیں۔ اگر ان میں بھی لچک قبول کر لی جائے تو اور کون سی بات باقی رہ جاتی ہے؟

انہوں نے سنی شیعہ اختلافات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ اختلافات بنیادی ہیں، کیونکہ قرآن کریم کا محفوظ ہونا، صحابہ کرام کا مومن ہونا اور بالخصوص خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کا اہل ایمان کا سرِخیل ہونا ہمارے عقائد و ایمان کا حصہ ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ کی پاک دامنی پر قرآن کریم نے شہادت دی ہے۔ اس لیے ان بزرگوں پر طعن کرنے والوں کے ساتھ ہم جمع نہیں ہو سکتے اور ایسا کرنا دینی حمیت کے منافی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کا بنیادی مقصد ہمارے عقائد و ایمان کو کمزور کرنا اور ہمیں ان سے محروم کرنا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے عقائد کی حفاظت کریں اور ایمان کو مضبوط بنائیں کیونکہ ایمان ہی کی قوت ہے جو ہمارے کام آئے گی اور اسی قوت کی وجہ سے ہم کفر کی یلغار کا مقابلہ کر سکیں گے۔

انہوں نے ترکی کے حالات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ترکی میں اسلامی شعائر کو جبرا مٹایا جا رہا ہے اور اہل دین کے خلاف زمین تنگ کی جا رہی ہے، صرف اس لیے کہ ترک مسلمان اسلام سے محبت کرتے ہیں اور ماضی میں ترکی نے خلافت عثمانیہ کے نام سے ایک عرصہ تک اسلام کا پرچم سربلند کیے رکھا ہے۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ توبہ کا راستہ اختیار کریں اور کفر و ظلم کی زندگی ترک کر کے اطاعت اور فرمانبرداری کی زندگی اختیار کریں۔ جس نے لوگوں پر ظلم کیا ہے وہ ظلم سے توبہ کرے، جس نے بدکاری کی ہے وہ بدکاری سے توبہ کرے، جو نشہ کرتا ہے وہ نشے سے توبہ کرے اور جو سودی کاروبار کرتا ہے وہ سود سے توبہ کرے، بے نماز لوگ نماز کی پابندی کریں، مسلمان حکومتیں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا اہتمام کریں، کتاب و سنت کے فیصلوں پر عمل کریں اور ہم سب اپنے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایات کی پیروی کریں۔ اسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں گے اور جب خدا راضی ہوگا تو دنیا کی طاقتیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گی۔

الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی کے اس تاریخی خطاب کے چند پہلو ہم نے پیش کیے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل علم اس خطاب کو خود سنیں اور اس کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس خطبہ کے بعد سے شیخ موصوف منظر سے مسلسل غائب ہیں اور کم و بیش ڈیڑھ ماہ سے انہوں نے نہ کسی جمعہ پر خطبہ دیا ہے اور نہ ہی کوئی نماز پڑھائی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے یا وہ گھر میں نظر بند کر دیے گئے ہیں؟ ہم سعودی عرب کی معزز حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ الشیخ علی عبد الرحمن الحذیفی جیسے ہردلعزیز امام و خطیب کی صحت و سلامتی اور آزادی کے بارے میں تازہ ترین صورتحال سے عالم اسلام کو باخبر کرے۔