کسی قوم کی تہذیب کا معیار یہ نہیں کہ وہ نوجوانوں سے کیسا برتاؤ کرتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو کتنی عزت دیتی ہے۔ دنیا بھر میں 60سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہریوں کو سینئر سٹیزن کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی، محنت اور تجربے سے معاشرے کو پروان چڑھایا۔ اگر وہ ملازمت پیشہ تھے تو اپنی کارکردگی سے اپنے ادارے کے معیار کو بہتر سے بہترین کی طرف لے کر گئے۔ اساتذہ تھے تو اپنی کارکردگی سے پوری نسل اور قوم کی قسمت کو سنوار دیا۔ یہ سنیئر سٹیزنز ہی تھے جنہوں نے آنے والی نسل کے لیے ترقی و کامرانی کی راہیں تعمیر کیں۔ اب یہ عمر آرام، عزت اور سہولت کی متقاضی ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اسی طبقہ کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بزرگ شہریوں کو عزت کے ساتھ ساتھ مکمل سہولیات بھی حاصل ہیں۔ سویڈن، ناروے، جاپان، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں ان بزرگوں کو مفت یا رعایتی سفری سہولیات حاصل ہیں۔ ان کے لیے اولڈ ایج ہومز میں معیاری رہائش اور بہترین خوراک میسّر ہے۔ انہیں صحت کی مکمل انشورنس دی گئی ہے۔ ان ممالک میں بینکوں اور دفاتر میں بزرگ شہریوں کے لیے علیحدہ کاؤنٹرز بنے ہوئے ہیں۔ وہاں شہریوں کو سوشل سیکورٹی کی صورت میں ہفتہ وار یا ماہانہ معقول رقم دی جاتی ہے جس سے وہ اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں سنیئر سٹیزنز کی حالتِ زار دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بزرگ شہریوں کو حاصل واحد سہولت یہ ہے کہ 55سال کی عمر کے بعد شناختی کارڈ ری نیو کروانے والوں کو تاحیات مدت کے لیے شناختی کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی سرکاری دستاویز کے لیے یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ آپ کو ڈرائیونگ لائسنس کو بار بار ری نیو کروانے کے لیے دفاتر کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ پاسپورٹ ستر سال کی عمر میں بھی ایکسپائر ہو جاتا ہے اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پچاس سال کی عمر کے بعد شہریوں کو ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ مفت اور تاحیات مدت کے لیے جاری کیے جائیں تاکہ وہ ضعیف العمری میں دفاتر کے دھکے نہ کھائیں۔
ہمارے ہاں اگرچہ 2019میں سینئر سٹیزنز ایکٹ منظور ہوا، مگر زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ نادرا 55سال سے زائد عمر افراد کو تاحیات شناختی کارڈ تو دیتا ہے، مگر دیگر ادارے اب بھی بوڑھوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، اور دیگر دستاویزات کے حصول میں کوئی سہولت نہیں۔ بوڑھے بھی جوانوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہانپتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے یہاں بزرگوں کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان کے لیے بسوں اور ٹرینوں میں نشستیں مخصوص نہیں ہوتیں۔ انہیں بعض اوقات کھڑے ہو کر بھی سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان کے لیے ہوائی جہازوں میں بھی مخصوص نشستیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بینکوں میں بھی بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی کاؤنٹرز کم ہی نظر آتے ہیں۔ وہیل چیئر کی فراہمی صرف نمائشی اقدام بن کر رہ گئی ہے۔ جن ہاتھوں نے وطن کی تعمیر میں اینٹیں لگائیں، آج وہی ہاتھ فارم بھرتے بھرتے کانپ جاتے ہیں۔ مگر کسی حکومت نے آج تک ان کے سکون اور آسودگی کے لیے کوئی عملی کام کیا نہ اس بارے میں کبھی سوچا۔ میری گزارش ہے کہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کی طرز پر سینئر سٹیزنز بینیفٹ پروگرام شروع کرے جس کے تحت ہر بزرگ شہری کو ماہانہ مالی امداد دی جائے تاکہ بزرگوں کا اولاد کے سامنے بھرم قائم رہے۔ جن ہاتھوں نے ساری عمر کما کر اولاد کی پرورش کی، ان کی ضروریات پوری کیں، وہ ہاتھ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسی اولاد کے سامنے پھیلاتے ہوئے بزرگوں کو ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ان کی عزتِ نفس بھی اس سے مجروح ہوتی ہے۔ طویل عرصہ تک ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والوں کا بڑھاپے میں اتنا حق تو بنتا ہے۔
حکومت آئے دن سرکاری پنشنرز کی پنشن میں کٹ لگانے کے نئے نئے طریقے اختیار کر کے بزرگوں کے ساتھ زیادتی کرتی رہتی ہے۔ یاد رکھیے! پنشن ان لوگوں کا حق ہے، سرکاری بھیک نہیں ہے جسے دیتے وقت حکومتی زعماء ان بزرگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ تمام پنشنرز ہی سنیئر سٹیزنز ہوتے ہیں۔ ان کے حقوق انہیں عزت و احترام کے ساتھ دیئے جائیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سرکاری ای ٹرانسپورٹ بسوں میں سینئر سٹیزنز کے لیے مفت سفر کی سہولت دی ہے۔ ان کا یہ قدم لائقِ تحسین ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ 55سال سے زائد عمر بزرگوں کو ٹرین میں بھی مفت سفر کی سہولت مہیا کرے۔ نیز نجی ٹرانسپورٹ اور ایئر لائنز کو بھی ہدایات دی جائیں کہ ان حضرات کو کرایہ میں کم از کم 50فیصد رعایت دی جائے۔ ان کے لیے بس، جہاز اور ٹرین میں مخصوص نشستیں لازمی مختص کی جائیں۔
حکومت کو چاہیے کہ بزرگ شہریوں کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھے۔ تمام سرکاری اور سرکار کی طرف سے ٹھیکے پر دیئے گئے ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کے لیے مفت علاج خصوصاً شوگر، بلڈ پریشر، گنٹھیا اور دل کے امراض کی ادویات مفت فراہم کی جائیں۔ آئے دن ان ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بزرگوں کو بھکاری بنا دیا ہے جبکہ عزتِ نفس کا پاس کرنے والوں کو موت کے انتظار کے کرب کے حوالے کر دیا ہے۔ اسی طرح بینک و دفاتر میں بزرگوں کو ترجیحی خدمات مہیا کی جائیں تاکہ بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں وہ بے سکونی اور پریشانی سے بچ جائیں۔ ہمارے ہاں بھی اولڈ ایج ہومز کا قیام محدود سطح پر شروع ہو چکا ہے۔ ان میں بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ زیادہ تر ہومز کا ماحول ایسا ہے کہ بزرگ وہاں آرام و سکون کی بجائے خود کو قیدی سمجھتے ہیں۔ حکومت ان نجی و سرکاری اولڈ ایج ہومز کے معیار کی نگرانی کرے تاکہ وہ رحم اور آرام و سکون کے حقیقی مراکز بن سکیں ناکہ تنہائی کے قید خانے محسوس ہوں۔
میری تجویز ہے کہ سینئر سٹیزنز ایکٹ پر صوبائی سطح پر عملدرآمد کے لیے خصوصی سیل قائم کیے جائیں تاکہ شکایات کا فوری ازالہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ معاشرے میں بزرگوں کے احترام کی اخلاقی و دینی مہم چلائی جائے۔ مدارس، مساجد، تعلیمی ادارے اور میڈیا بزرگوں کے احترام کا پیغام عام کریں۔ یاد رکھیے! بزرگ وہ درخت ہیں جن کے سائے میں نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کل کو ہماری اولاد ہمیں عزت و احترام دے تو آج ہمیں اپنے بزرگوں کو عزت، سہولت اور محبت دینی ہو گی۔ قومیں تبھی مہذب بن سکتی ہیں جب وہ اپنے بزرگوں کے سامنے سر جھکانا سیکھ لیں۔

