کیا دنیا مردانِ جفاکش کے لیے تنگ ہے!؟

”اسکاٹش اینلایٹمنٹ فلسفے” کا رد علامہ اقبال نے کیا۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے اس فلسفے کا رَد کر تے ہوئے کہاتھا کہ… دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ…
کامیابی کا تصور نظام معیشت سے وابستہ نہیں، بلکہ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی اور خلوص کے پیکر بغیر سرمائے کے بھی دنیا میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک دو نہیں ہر شعبے اور طبقے سے سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگر سیاست کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے جنوبی افریقا کے پسماندہ گائوں ”قونو” کے ایک چرواہے کو آزادی کا ہیرو ”نیلسن منڈیلا” بنا دیا۔

اسی طرح ریڑھی پر پھل رکھ کر بیچنے والے سوکھے سڑے انسان کو ملائیشیا کا وزیراعظم ”مہاتیر محمد” بنا دیا۔ انڈیا یک ”بھارتیہ جنتا پارٹی” سے تعلق رکھنے والے ”نریندر مودی” کے والد ”وادنگر” کے ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش تھے۔ انڈے اور چھولے بیچا کرتے تھے، جبکہ ان کی والدہ پرائیویٹ دفتروں میں صفائی ستھرائی اور جھاڑو پوچا کا کام کیا کرتی تھی۔ غریب والدین کا غریب بیٹا اپنی محنت اور جدوجہد کے بل بوتے پر آج بھارت کا وزیراعظم ہے۔

اگر سماج کی دنیا کی بات کی جائے تو مشرق و مغرب کے وہ تمام بڑے لوگ جنہوں نے قوموں، اُمتوں اور تہذیبوں کا سمتِ سفر تبدیل کیا، معاشرتی انقلاب برپا کیے یعنی افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لے کر سارتر سپنسر نطشے، فرائیڈ ہیگل اور روسو تک ان سب کا راستہ امیری نہیں فقیری تھا، ہے اور رہے گا۔

اسی طرح اگر معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش میں غریبوں کے لیے 30ڈالر سے قائم ہونے والے ڈاکٹر یونس کے ”گرامین بینک” نے دنیا کو نیا معاشی فارمولہ دیا ہے۔ اس بینک کی 1041شاخیں ہیں، لیکن اس کے بورڈ آف گورنرز میں آج بھی 13میں سے 9ممبران عام اَن پڑھ دیہاتی جفاکش مزدور ہیں۔ اسی طرح ریڑھی پر برگر سے کام شروع کرنے والے ”ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرز” پوری دنیا میں معروف فوڈ چین کے ارب کھر ب پتی بن گئے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ”ولیم کولگیٹ” ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے 1806ء میں اپنے ہی نام پر ایک کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ آج یہ کمپنی ”کولگیٹ پام اولائیو” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے بے شمار ذیلی ادارے 200ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ”ہنری فورڈ” بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پہلے صنعت کار اورآخر میں فورڈ موٹر کمپنی کا بانی بنا۔ فورڈ کمپنی امریکا کی دوسری بڑی آٹو میکر کمپنی اور دنیا کی پانچویں بڑی کمپنی ہے۔ امریکا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ 2009ء میں اس کی آمدنی 118.3بلین ڈالر تھی۔ 2008ء میں اس نے 5.532ملین ڈالر موبائلز بنائیں۔ اس کمپنی کے ملازمین کی تعداد 2لاکھ 13ہزار ہے، جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔

چاپان سے تعلق رکھنے والا ”سوئچرو ہنڈا” ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ انتھک محنت کر کے انجینئر اور صنعت کار بنا۔ اس نے 1948ء میں اپنے خاندان کے نام ”ہنڈا” کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک لکڑی کی مینو فیکچرنگ بائیسائیکل موٹرز سے بڑھتی، پھلتی پھولتی ایک کثیر القومی کمپنی آٹو موبائل اور موٹر سائیکل مینو فیکچرر بن گئی۔ چین سے تعلق رکھنے والا ”لی کاشنگ” ایک غریب اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔ ہانگ کانگ کے بزنس مین، سرمایہ کار اور سماجی و فلاحی شخصیت کے طور پر ابھرا۔ 2008ء میں یہ ایشیا کا امیر ترین اور دنیا کا گیارہویں نمبر پر تھا۔

تھوڑا سا دور چلے جائیں۔ ”کرسٹوفر کولمبس” جس نے امریکا دریافت کیا، ایک جولاہے کا لڑکا تھا۔ کرسٹوفر کولمبس نے ایک غریب گھرانے میں 1451ء میں آنکھ کھولی۔ مشقتیں برداشت کیں۔ انتھک محنت کی۔ یہاں تک کہ کامیاب ہوگیا۔ ملکہ ”ازابیلا” اور ”فرڈی نینڈ” نے اسے چھوٹے جہاز دیے جن سے اس نے 1492ء میں امریکا دریافت کیا۔ کولمبس کی اس دریافت نے دریافتوں، مہم جوئی اور نوآبادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھولا اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حکیم لقمان بچپن میں موم بتیاں بناتے تھے۔ ناصر الدین بادشاہ بچپن میں ٹوپیاں بیچا کرتے تھے۔ روس کا سابق ڈکٹیٹر اسٹالن ایک موچی کے گھر میں پیدا ہوا۔ فرانس کا مشہور حکمراں نپولین ابتدا میں ایک معمولی سپاہی تھا۔ مشہور سائنسدان ”تھامس الوا ایڈیسن” ایک معمولی اخبار فروش تھا۔ نادر شاہ ابتدا میں ایک گڈریا تھا۔ فرانس کی مشہور ملکہ ”جوزیفائن” ایک معمولی تمباکو فروش کی بیٹی تھی۔ اٹلی کا سابق ڈکٹیٹر مسولینی ایک غریب لوہار کا بیٹا تھا۔ امریکا کے ایک صدر ابراہم لنکن ایک غریب کسان کے بیٹے تھے۔ برصغیر کے پہلے مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک شروع میں ایک غلام تھے۔ روس کی مشہور ملکہ ”کیتھرائن” فوج میں ایک معمولی خادمہ تھی۔ جمہوریہ کانگو کے پہلے وزیرِ اعظم ”لومبا” ابتدا میں ایک معمولی کلرک تھے۔ سقراط بچپن میں ایک پتھر تراش تھا۔ ”فیریڈی نائیکل” بھی ایک معمولی جلد ساز تھا۔ روس کے سابق وزیرِ اعظم ”نکیتیا خروشیف” ایک مزدور گھرانے میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدا میں مویشی چَرائے اور ایک معمولی لوہار کی حیثیت سے کام کیا۔

مشہور انگریز ادیب ”تھامس کارلائیل” ایک بڑھئی اور کسان کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور انگریز سائنس دان ”مائیکل فیراڈے” لندن کے مضافات میں ایک غریب لوہار کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور امریکی مدبر، مصنف اور سائنسدان ”بنجمن فرینکلن” بوسٹن میں غریب والدین کے گھر پیدا ہوا۔ مشہور سائنس دان ”جان کپلر” بھی جرمنی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ آپ کہیں گے یہ تو قدیم مثالیں ہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ نے ان ممالک اور معاشروں کی مثالیں دی ہیں جہاں پر امیر اور غریب دونوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ان معاشروں اور ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی انتھک محنت، توجہ اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا خواب پورا کر سکتا ہے، ہمارا معاشرہ تو بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہاں پر جائز اور سسٹم کے طریقے پر چل کر اعلیٰ منصب، دولت، ترقی اور شہرت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ تو میرے بھائیو! یاد رکھو! ایسا ہرگز نہیں ہے۔