غزہ: کھنڈر میں جنم لینے والی داستا ن الم

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی

غزہ دکھوں کا در اور غموں کا گھر ہے، ملبے کا ایک ایک تنکا دکھ بھری کہانیوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن وہاں امید اور انسانیت کو جگانے اور دلوں کو چھونے والی داستانیں بھی موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان ترکیہ کی ”کوتاہیا یونیورسٹی برائے صحت سائنسز”کے شعبہ اطفال جراحی کے سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم اویغون کی ہے۔

ڈاکٹر اویغون رضاکارانہ طور پر غزہ گئے، جہاں انہوں نے درجنوں آپریشن کیے اور سینکڑوں زخمیوں کے علاج میں حصہ لیا۔ اس مسیحا کی میسحائی نے نہ صرف مریضوں کی زندگی بدل دی بلکہ ان کی اپنی زندگی بھی تبدیل ہوگئی۔ ہسپتال میں ترک ڈاکٹر کی ملاقات غزہ کی ایک نرس سے ہوئی جو خود بھی رضاکار تھی اور دونوں نے بمباری کے دوران ہی شادی کر لی، یوں ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ غزہ کے تباہ حال علاقے سے باہر نہ نکل سکے، چنانچہ انہوں نے صدر رجب طیب اردوان کو ایک ویڈیو پیغام بھیجا۔ اس کے بعد ترکیہ کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی نے اسے سنجیدگی لیا اور دونوں کو غزہ سے نکال کر ترکیہ پہنچا دیا۔

خوشی اور غم کی کہانی
ترک صحافی مال وزتور لکھتے ہیں کہ ابراہیم اویغون میرا 35سال پرانا دوست ہے، اپنی جوانی سے ہی وہ اپنی تیز ذہانت، مختلف اندازِ فکر، ایمان اور محنت کی بدولت ہمیشہ قابلِ تحسین رہا ہے۔ ہماری طویل دوستی کے دوران اس نے طب کی تعلیم حاصل کی اور میں نے صحافت کی راہ اپنائی لیکن ہمارا رابطہ ہمیشہ قائم رہا۔ جب وہ غزہ گیا، تو اس نے مجھے وہاں سے تصاویر اور ویڈیوز بھیجیں اور ان تکالیف کے بارے میں بھی لکھا جو اس نے وہاں محسوس کیں۔ دو مہینوں کے دوران اس نے اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والے بچوں کی سرجری کی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھا، وہ بھی شدید بمباری اور نہایت مشکل حالات میں۔ ایک دن اس نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی جو صدر رجب طیب اردوان کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی، جس میں وہ مدد کی اپیل کر رہا تھا تاکہ وہ اور اس کی نئی نویلی دلہن جو اس وقت اس کے ساتھ غزہ میں پھنسی ہوئی تھی، وہاں سے نکل سکیں۔ اس نے یہ ویڈیو کئی دیگر اداروں کو بھی بھیجی اور میں نے بھی یہ ویڈیو متعلقہ حکام تک پہنچائی، کچھ ہی دیر میں مجھے اطلاع ملی کہ ترکیہ کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی (MIT)نے انہیں نکالنے کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔

ایک سخت اور تھکا دینے والے سفر کے بعد گزشتہ ہفتے انہیں اردن کے ذریعے ترکیہ منتقل کر دیا گیا، واپسی کے فوراً بعد میری ملاقات ابراہیم اور اس کی اہلیہ سے ہوئی اور ان دونوں نے مجھے وہاں گزرے اپنے تلخ و شیرین لمحات کی روداد سنائی۔ ڈاکٹر ابراہیم کا کہنا تھا کہ میں 7اکتوبر 2023ء کے واقعات کے بعد سے غزہ بطور رضاکار جانے کا خواہشمند تھا۔ مجھے زلزلوں، دہشت گردانہ حملوں اور قدرتی آفات کے دوران بچوں کی سرجری کے کام کا وسیع تجربہ حاصل ہے اور میں سمجھتا تھا کہ میرا یہ تجربہ غزہ کے بچوں کے علاج میں مددگار ثابت ہوگا، اسی لیے میں نے وہاں جانے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ شروع میں غزہ تک رسائی عالمی ادارہ صحت (WHO)کے ذریعے ممکن تھی، جو ترکیہ اور یورپ میں موجود فلسطینی ڈاکٹروں کی تنظیموں کے توسط سے کام کر رہا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک پیچیدہ عمل تھا اور صرف اسرائیلی حکومت کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہو پاتا، میں تقریبا ًایک سال تک غزہ جانے کی مسلسل کوشش کرتا رہا، انجام سے بے پروا ہوکر۔ ظاہر ہے اس میں میری جان بھی جاسکتی تھی۔ پہلی بار، دسمبر 2024ء میں ہمیں عمان بلایا گیا، جہاں ہم چار ترک ڈاکٹر تھے لیکن اسرائیل نے ہم میں سے تین ڈاکٹروں کو داخلے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے ہمیں ترکیہ واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد میرے مستقل اصرار اور کوششوں کے نتیجے میں تنظیموں نے میری درخواست پر دوبارہ غور کیا اور مجھے دوبارہ مدعو کیا گیا۔ اس مرتبہ میںڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ہمراہ 28جنوری 2025ء کو اردن کے راستے کرم ابو سالم بارڈر کے ذریعے غزہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔

وہاں صورتِ حال کیسی تھی؟
وہاں تباہی بے حد شدید تھی، ہم ڈاکٹرز اس قدر ہولناک مناظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ صدمہ پہنچانے والی لگی وہ یہ تھی کہ میں نے وہاں کوئی درخت یا زندہ جانور نہیں دیکھا نہ کوئی مرغی، نہ بطخ، نہ بھیڑ، نہ گائے، کچھ بھی سڑکوں پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ زیادہ تر جانور مر چکے تھے اور جو بچے تھے، انہیں مقامی لوگ اپنی بقا کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار قحط کو اتنے قریب سے دیکھا اور لوگوں کو انتہائی بھوک کی حالت میں بے بسی سے لڑتے ہوئے پایا۔

غزہ میں جنگ بندی کے دوران داخلہ
اس وقت جنگ بندی کا آغاز ہو چکا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں جنوبی غزہ سے شمال کی طرف واپس آرہے تھے۔ ہزاروں لوگ گدھا گاڑیوں یا کسی بھی ممکنہ ذریعہ آمد و رفت سے واپس آ رہے تھے۔ انہیں اپنے گھروں کو دیکھنا تھا، چاہے وہ مکمل طور پر تباہ ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ انسانی ہجوم اتنا بڑا تھا کہ ہمیں 20کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں 7گھنٹے لگے۔ہم ہسپتال”الاہلی العربی”میں مقیم تھے، جوالمستشف المعمدانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے لیکن میری ڈیوٹی مستشف صدقا المریض میں تھی جو اس سے تقریباً 3 کلومیٹر دور تھا۔یہ ہسپتال ایک ایمرجنسی سینٹر کی مانند تھا اور ہم وہاں بچوں کے زخموں کا علاج کرتے تھے۔

ہسپتالوں کی حالت کیسی تھی؟
اسرائیل جان بوجھ کر غزہ کے ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ سب سے بڑے ہسپتالوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ سینکڑوں ڈاکٹرز اور مریض شہید ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر کو ان ہسپتالوں کے لان میں ہی دفن کر دیا گیا۔ جن ہسپتالوں نے کام جاری رکھا، وہ بھی بمباری کا شکار ہوئے اور ان کے کچھ حصے استعمال کے قابل رہے۔ سی ٹی اسکین مشین ہمارے لیے ایک نہایت اہم ٹول ہے، جس کی مدد سے ہم جسم یا کھوپڑی میں گولیوں یا گولوں کے ٹکڑے دیکھ سکتے ہیں اور اس بنیاد پر سرجری کرتے ہیں۔ غزہ کے علاقے میں جہاں آبادی 2.5ملین افراد پر مشتمل ہے، صرف دو سی ٹی اسکین کے آلات ہی اچھی حالت میں موجود تھے۔ زخمیوں کو فورا اس ہسپتال منتقل کیا جاتا جہاں یہ آلہ موجود ہوتا اور پھر اگر ضرورت پڑتی، تو انہیں دوسرے ہسپتال منتقل کیا جاتا تاکہ آپریشن کیا جا سکے۔ باقی تمام طبی آلات کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی اور جراحی کے آلات بہت کم تھے۔ ہم انتہائی مشکل حالات میں سرجری کرتے تھے، ہم بچوں کا علاج کر رہے تھے اور یہ واضح تھا کہ ان کے چھوٹے جسم بموں اور گولیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے۔غزہ میں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے اور ہم آپریشن تھیٹرز کو جنریٹرز کے ذریعے چلاتے تھے۔ جنگ بندی کے دوران بھی بمباری اور ڈرون حملے رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کبھی کبھار ہمیں دھماکوں اور میزائلوں کی آواز کے درمیان آپریشن کرنا پڑتا تھا۔ ہسپتال کے کمروں میں ہم 7یا 8مریضوں کو ایک ساتھ لٹاتے تھے، کوئی بھی کمرہ یا بیڈ خالی نہیں تھا۔ ہم ڈاکٹروں کو ایک تنگ کمرے میں بغیر ہیٹنگ کے سونا پڑتا تھا۔ شدید سردی میںہم 5یا 6جوڑے کپڑے پہنتے تاکہ ہم کچھ دیر کے لیے سو سکیں۔بچے سردی برداشت نہیں کر پاتے تھے اور کئی نوزائیدہ بچے سردی کی شدت کی وجہ سے شہید ہو گئے۔(جاری ہے)