فیصلہ کن ڈیڑھ سال

بڑے میاں سوبڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ! بڑے خان صاحب کی طوطا چشمی تو ضرب المثل ہے ہی ، پوری پی ٹی آئی ٹی ماشاء اللہ انہی کے نقش قدم پر ہے۔ 2015ء سے بلاواسطہ اور اس سے پہلے بالواسطہ وہ تحریک انصاف اور خان صاحب کو مضبوط کرنے میں لگے رہے اور محبت کا یہ عالم تھا کہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی وہ خان صاحب کو بھولے نہ پی ٹی آئی کو، بلکہ مبینہ طور پر وارننگ کے باوجود بھی تحریک انصاف کو مضبوط کرنے اس کے لیے راہیں کھولنے شبانہ روز مصروف رہے ، اب جب فیض حمید کو 14سال کی قید بامشقت ہوئی ہے اور ان کی سیاسی حرکتوں کی بابت مزید تفتیش تحقیق جاری ہے پوری پارٹی یہی کہتی جان چھڑاتی نظر آرہی ہے کہ فیض کو سزا ملنا ادرونی معاملہ ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
٭٭٭
جب شجاع پاشا (مبینہ طور پر) بطور ڈی جی آئی ایس آئی تحریک انصاف کی آبیاری کر رہے تھے، اس وقت فیض حمید خاصے نچلے رینک پر تھے، لیکن ذہانت، فطانت، حاضر دماغی، دل چسپی ، تحریک اور متحرک رہنے کی جو عادات و علامات جنابِ فیض میں موجود تھیں، ان کے سینئر جس طرح ان سے کام لے رہے تھے، اس روشنی میں فیض حمید اپنے لیے راہیں متعین کرنے اور تانے بانے بننے میں لگے ہوئے تھے۔ یوں سنہ 2011ء سے 2015ء تک کا وقت انھوں نے ایسے ہی گزارا اور خود کو اس طرف فوکس رکھا، ان کی اور تحریک انصاف کی خوش قسمتی تھی یا موجودہ بدقسمتی کے اسباب بننا شروع ہوگئے ۔ اپریل 2017 ء میں پاناما پیپر آگئے ، اس وقت فیض حمید ڈی جی ایم آئی کے تحت غالبا ڈی جی سی تھے۔
٭٭٭
فیض حمید ذہانت، فطانت، موقع کو استعمال کرکے نتائج حاصل کرنے اور ترقی کی راہیں کھولنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے، انھوں نے پانامہ پیپر پر کام کیا اور اپنے بڑوں کو وہ راہیں دکھائیں جنھوں نے بعد میں صورتحال کو ان کیلئے ساز گار بنا دیا۔ جون 2017ء میں جب وہ ڈی جی سی بنے تو گویا ان کیلئے مزید راہیں کھل گئیں ، ان کے پیش رو جن خطوط پر کام کر رہے تھے اور ان کے سامنے یہ تھا کہ ایک تیسری بڑی سیاسی قوت ہونی چاہیے اور یہ نکتہ نیا نہیں پرانا تھا لیکن پہلے لوگ اس نکتے کو کامیاب نہیں کر سکے تھے اور جنر ل شجاع پاشا اور پھر جنرل ظہیر الاسلام نے اس پر جس طرح کام کیا، اس سے راہیں کھل گئی تھیں اور اب ڈی جی سی فیض حمید نے اس کو بطور مشن اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، چنانچہ ایسا جال بنا کہ بڑے میاں صاحب ان کے جال میں پھنستے چلے گئے اور پانامہ کے شکنجے میں آئے بڑے میاں صاحب عدالت سے اقامے کے بنیاد پر نااہل قرار پائے۔ اور اس سارے عمل میں ڈی جی سی فیض حمید نے عملی طور پر گویا کمان سنبھال لی کہ 2018ء کے انتخابات کن خطوط پر پر ہونے ہیں، ایسا کام کیا اور ایسی انتھک محنت کی 2018ء کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں ایک بڑے سیاسی رہنما اور ان کی بڑی پارٹی کو ایسا پھنسا دیا کہ وہ کچھ کر ہی نہ سکے کیا جج کیا صحافی کیا سیاست دان سب اس چشمے سے فیض یاب ہونے لگے۔
٭٭٭
طوطا چشمی کا سبق تحریک انصاف کو اس کے بانی بڑے خاں صاحب نے اسے ایسا سکھایا جو اس نے اپنی گرہ میں باندھ رکھا ہے لیکن کیا طوطا چشمی اس کے کام آئے گی اور جو کارنامے فیض عمران نیٹ ورک نے مل کر انجام دیے تھے اس میں تنہا فیض حمید ہی پھنسیں گے۔ کئی باخبر لوگوں کا دعوی ہے ایسا نہیں ہوگا بلکہ 2027ء کے انتخابات تک اس پر ٹُک ٹُک کام چلتا رہے گا اور انتخابات سے پہلے تحریک انصاف بطور پارٹی جن مشکلات سے دوچار ہوگی، وہ ان انتخابات میں شاید پانچویں پوزیشن پر بھی مشکل سے ہی آسکے۔
٭٭٭
تحریک انصاف نے نئی سیاسی کمیٹی بنائی ہے، کئی بڑے بڑے نام اور پارٹی کیلئے گرانقدر خدمات انجام دینے والے رہنما نئی سیاسی کمیٹی سے آؤٹ ہو گئے ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ ایک طرف چوں چوں کا مربہ نئی سیاسی کمیٹی اختلافات کا شکار ہوگی، دوسری طرف اس کمیٹی کو ناکام بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اندر سے ایسے گروپ بنیں گے جو اس کی ٹانگیں کھینچ کھینچ کر اسے کمزور بنادیں گے۔ چونکہ خاں صاحب سے ملاقات اور رہ نمائی لینے کے اسباب سر دست مہیا نہیں ہیں، اس لیے ہر ایک دعوی کرسکتا ہے کہ وہ اصلی تحریک انصاف ہے بس اس سے انصاف نہیں کیا گیا۔ اگلا ڈیڑھ سال یہی ادھیڑ بن رہے گی جو 2027ء کے ممکنہ انتخابات میں اسے اس مقام پر لے آئے گی جس مقام پر وہ 2011ء سے پہلے تھی۔
٭٭٭
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی آخری سطور کو جس طرح معنی خیز اور مستقبل کی تصویر کے پیش خیمے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ اس تصویر کے بننے اور اس کے معنی سامنے آنے میں وقت لگے گا اور ڈیڑھ سال کا فیصلہ کن یہی وہ وقت ہے جب ایک طرف معاشی حالات کی بہتری کے لیے حکومت کام کرے گی، عسکری قوت دفاعی مضبوطی کے لیے کئی مثالی قدم اٹھائے گی، اور حساس ادارے اندرونی وبیرونی سازشوں کے تہ در تہ بنے جال کو تار تار کریں گے۔ ایسے میں مذہبی، سیاسی صحافتی اور معاشی حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اگر یہ تمام طبقات اپنی ذمے داری صحیح معنی میں ادا کر گئے تو اگلے چند سالوں میں ترقی کی راہیں ان شاء اللہ کھلیں گی، سیاسی استحکام بھی ہوگا معاشی قوت بھی ہوگی۔ چالیں چلنے اور سازشیں کرنے والے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہوں گے ان شاء اللہ!