رپورٹ: منصور عادل
ترکیہ کے شہر انطالیہ میںجمعہ کوعرب اسلامی فورم کی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں شامی صدر احمد الشرع اور انڈونیشیا کے صدر پربوو سو بیان تو سمیت 20ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور، 74وزرا ،23نائب وزرا اور 11پارلیمنٹیرینز سمیت 450 نمائندے شریک ہورہے ہیں۔ جن ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس فورم میں شرکت کی ہے۔ ان میں ، مصر ،سعودی عرب، قطر، اردن، بحرین، فلسطین ،متحدہ عرب امارات ، تری ، انڈونیشیا اور نائیجیریا شامل ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرلز نے بھی اس فورم میں شرکت کی ہے۔
”منقسم دنیا میں سفارتکاری کی بحالی”کے عنوان سے اس کانفرنس میں غزہ جنگ اور دنیا میں بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کے چیلنجز سمیت متعدد اہم امور پر بات ہورہی ہے، تاہم اس میں نمایاں بات غزہ کے باشندوں کی بے دخلی کی کوششوں کی مخالفت کے طور پر کی گئی ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ غزہ سے متعلق اس فورم کے بارے میں کوئی مثبت پیش رفت ہوگی ۔ انطالیہ فورم کے انعقاد کا یہ چوتھا سال ہے۔
ترکیہ کا خیال ہے کہ جب بین الاقوامی اختلافات عروج پر ہیں اور اسلامی وعرب ممالک تقسیم کا شکار ہیں ایسے میں مکالمے اور ڈائیلاگ کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔انطالیہ فورم مسلسل تین سال کے اپنے پروگرام کے ذریعے تین تنازعات کے حل میں کردار ادا کرنے کا دعویدار ہے، ترک میڈیا کے مطابق 2021ء میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کے بعد کے تناع کے عروج پر ترکیہ نے دونوں ممالک کوا نطالیہ ڈپلومیسی فورم میں میں مدعو کیا تھا جس سے آرمینیا کے وزیر خارجہ کی 2022ء میں شرکت کی راہ ہموار ہوئی تھی اوراس طرح سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوا تھا۔
2022ء انطالیہ فورم نے روسی اور یوکرینی وزرائے خارجہ کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات کی میزبانی کی جو بالآخر اناج کے معاہدے کا پیش خیمہ بنی جس نے عالمی غذائی بحران کو روکنے میں مدد دی تھی۔2024ء انطالیہ ڈپلومیسی فورم نے افریقی ممالک کے ساتھ ترکیہ کی اقتصادی اور سیکورٹی شراکت داری کو مضبوط کیا اور براعظم پر اس کے اثر و رسوخ کو گہرا کیا۔ اسی سال اس نے وینزویلا، کیوبا اور ایران جیسے ممالک کے لیے ایک نایاب سفارتی پلیٹ فارم بھی فراہم کیاجو اکثر مرکزی عالمی مکالمے سے باہر رہتے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق انطالیہ ڈپلومیسی فورم کا چوتھا ایڈیشن ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر محاذ آرائی میں اضافہ اور بحرانوں کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور دارالحکومتیں سیاسی تقسیم اور بڑھتے ہوئے تنازعات کے درمیان مکالمے کے لیے مشترکہ مواقع کی تلاش میں ہیں۔ 2021ء کے آغاز کے بعد سے یہ فورم ایک موثر سفارتی پلیٹ فارم کے طور پر اپنی حیثیت قائم کر چکا ہے، جس کی میزبانی ترکیہ ہر سال کرتا ہے اور جو دنیا بھر کے رہنماؤں، حکام اور فیصلہ سازوں کو اکٹھا کرتا ہے۔
اس سال کا ایڈیشن ایک انتہائی پیچیدہ بین الاقوامی منظرنامے میں آ رہا ہے جسے یوکرین میں جاری جنگ، مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنا ؤخصوصاً غزہ پر جاری جنگ جیسے واقعات نے تشکیل دیا ہے، ساتھ ہی دنیا کو موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی جیسے بڑھتے ہوئے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں فورم سفارتی ذرائع کا ازسرِنو جائزہ لینے اور سیاسی طور پر متضاد فریقین کے درمیان نئے مکالماتی چینلز کھولنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
ترک صدارتی دفتر میں بین الاقوامی تعلقات کی ماہر مروہ عائشہ کزل اصلان نے بتایا کہ انطالیہ فورم اب صرف ایک تنظیمی تقریب نہیں رہا بلکہ یہ ایک سنجیدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں علاقائی سطح پر حساس مسائل میں امن و استحکام کے لیے حقیقی تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فورم میں شریک افراد اسے ایک منفرد موقع سمجھتے ہیں جہاں وہ براہِ راست مکالمے کے ذریعے خیالات کا تبادلہ اور حل کی تلاش کر سکتے ہیں۔
کزل اصلان نے الجزیرہ نیٹ سے گفتگو میں کہا کہ اس سال کی اعلیٰ سطح کی شرکت ترکیہ کے عالمی سفارت کاری میں کردار کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ فورم اب بین الاقوامی سطح پر ایک موثر اور سنجیدہ پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس بڑی شرکت سے ترکیہ پر بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے۔
اس فورم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ”چاہے تقسیم اور اختلاف کتنے ہی شدید ہوں، حل کا راستہ اب بھی مکالمے سے ہی گزرتا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین اور فلسطین خاص طور پر غزہ میں جاری شدید انسانی بحران اس بات کو دوبارہ واضح کرتے ہیں کہ سیاسی مکالمے کے ذرائع کو موثر بنانا کس قدر ضروری ہے، خاص طور پر جب موجودہ عالمی نظام اس قسم کے بحرانوں سے موثر طور پر نمٹنے میں ناکام نظر آتا ہے۔انطالیہ فورم میں مصر اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی شامل ہیں ۔ جس کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کے خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فورم موجودہ حالات کے تناظر میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔