پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو ملک سے جانے کی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے، افغان حکومت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ مہاجرین کی واپسی کےلئے وقت دیا جائے تاکہ ان کو بسانے میں آسانی ہو اور کوئی اور انسانی المیہ جنم نہ لے، لیکن پاکستان نے مزید وقت بڑھانے سے انکار کردیا ہے، اگرچہ اس فیصلے کے خلاف چند افراد اور جماعتیں آواز بلند کررہی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور میں تخت نشین چند افراد کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ نفرتوں کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ اس عمل سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، بلکہ حقیقی مسائل اور اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، مہاجرین کی باعزت واپسی کا منصوبہ نظر نہیں آتا، جس کی اشد ضرورت ہے۔
آنے والے ہفتوں میں واپس جانے والے لاکھوں بے گھر افغان مہاجرین کو فوری طور پر پناہ گاہ، گرم کپڑوں اور خوراک کی ضرورت ہے۔ پہلے ہی تین میں سے ایک افغان نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ افغان حکومت کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ واپس جانے والے اتنی بڑی تعداد کو سہولیات فراہم کرسکے۔ انسانی امداد کی ملکی اور عالمی تنظیموں کو چاہیے کہ اس کےلئے کام کریں، بین الاقوامی فنڈنگ کو اقوام متحدہ کے ٹرسٹ فنڈز کے ذریعے یا انسانی بنیادوں پر تنظیموں کے ذریعے عبوری اقدام کے طور پر بندوبست کیا جائے۔ بصورت دیگر افغان عوام کی حمایت جاری رکھنے کے ان کے وعدے رئیگاں ہوں گے۔ڈونرز کو بطور خاص بچوں، عورتوں اور مردوں کے لیے فوری امداد فراہم کرنے کے لیے تیز اور موثر حل فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو مزید انتظار نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کے اعداد و شمار اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 800,000 سے زائد افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے، جبکہ 1.3 ملین افغان شہری پاکستان حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے پاس پروف آف ریزیڈنس (PoR) کارڈ موجود ہے، تاہم بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ PoR ہولڈرز پر اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا؟ 800,000 سے زائد افغان مہاجرین واپس جا چکے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں مقیم 800,000 سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں 2.8 ملین افغان مہاجرین موجود تھے، جو گزشتہ 40 سالوں کے دوران جنگوں اور بحرانوں کے باعث پاکستان آئے۔ ان میں امریکا اور مغربی ممالک میں آبادکاری کے منتظر ہزاروں ایسے افغان شہری بھی شامل ہیں، جو 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں آباد ہونے کے عمل میں تھے جن کو لینے سے اب امریکا نے انکار کردیا ہے۔
امریکا ایک جانب افغان حکومت کے اثاثے بھی بحال نہیں کررہا کہ جس سے ہجرت کا عمل رک جائے اور ملک میں استحکام کا عمل شروع ہو، افغان عوام کو ملک کے اندر سہولیات اور نوکریاں فراہم ہوں، ہجرت کا سلسلہ تھم سکے اور دوسری جانب مہاجرین کے ساتھ بدتر سلوک کا نتیجہ آخر کیا ہوگا؟ بڑا سوال ہے، دنیا کو اگر مہاجرین کا سلسلہ ختم کرنا ہے تو پھر جاری جنگوں کی مخالفت کرنی ہوگی، عالمی طاقتوں کو پیغام دینا ہوگا، اگر ان کی جنگی پالیسیاں جاری رہیں تو پھر ہجرتوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس سے دنیا بھر میں دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے، سوال دنیا کے امن کا ہے، سوال انسانیت کا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان، یورپ امریکا، روس چین اس کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کی عالمی امدادی تنظیمیں خاموش ہیں، موت کا سناٹا ہے، اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے، اگر اس طرح کی پابندیوں کا شکار پاکستان ہوجائے اور کوئی پڑوسی ملک ساتھ نہ دے، تو ہماری حالت کیا ہوگی؟ بہت ہی افسوس کا مقام ہے۔ ہومینٹرین مسائل کی رپورٹنگ کرنے والے ادارے اور صحافی، جو بات بات پر انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں، انہیں پابندیوں کا شکار افغانستان کیوں نظر نہیں آتا؟ جہاں براہ راست انسانی جانوں کو خطرہ ہے، جہاں خوراک، لباس و ادویات کی کمی کا بحران ہے، افغانستان کی اگر انسانی امداد نہیں کی گئی تو معاشی طور دیوالیہ ہوسکتا ہے، جس کا نقصان پورے خطے کو ہوگا۔ اگر اس صورتحال کو فوری طور پر نہ سدھارا گیا تو افغان مہاجرین کے لیے سنگین مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک کی طرف سے امداد کی فراہمی نہ ہونے کی صورت میں نہ صرف انسانی بحران میں اضافہ ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اور بڑی تباہی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی طاقتیں اور امدادی ادارے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں تاکہ افغان عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں اور افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو سکے۔
