دوسری قسط :
٭امریکا نے ہمیشہ غیر ملکی افواج سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ کسی حکومت کے ہاتھ سے نکل جانے پر اسے مٹانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔
اسی طریقہ کے تحت 1973ء میں چلی اور 1965ء میں انڈونیشیا کی فوجی بغاوتوں کی بنیاد رکھی گئی۔ بغاوتوں سے قبل ہم چلی اور انڈونیشیا کی حکومتوں کے سخت مخالف تھے، تاہم انہیں اسلحہ فراہم کرنے کا عمل جاری تھا۔ اصل مقصد تھا کارآمد افسران سے تعلقات بہتر رکھنا، تاکہ وہ آپ کے لیے حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ 1980ء کی دہائی کی ابتدا میں امریکا کی جانب سے ایران کو اسرائیل کے ذریعے اسلحہ فراہم کرنے کے پیچھے بھی یہی دلیل کار فرما تھی۔ اس عمل میں شریک اعلیٰ اسرائیلی اہلکاروں نے اس کا اعتراف کیا اور1982ء میں یہ حقائق عالم آشکارا ہو گئے۔ قرضوں کے عوض آئی ایم ایف ”لبرلائزیشن“ مسلط کرتا ہے۔ لبرلائزیشن سے مراد بیرونی مداخلت اور کنٹرول کے لیے معیشت کو کھلا رکھنا اور عوامی خدمات کی رقومات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنا ہے۔ یہ اقدام زیادہ مضبوطی کے ساتھ طاقت اور اختیارات خوشحال طبقات اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ حد سے زیادہ خوش حال طبقہ اور پھر غربت کے مارے ہوئے مصیبت زدہ عوام کا انبوہ فوجی جنتا کی جانب سے حاصل کردہ قرضے اور پیدا شدہ معاشی بحران اس بات کو یقینی بنا دیتا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصول و قواعد کی پابندی ہو۔ ماسوائے اس امکان کے کہ عوامی قوتیں سیاسی عمل میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کریں، جس صورت میں فوج کو دوبارہ استحکام اور سلامتی برقرار رکھنا پڑتی ہے۔
برازیل کی مثال اس ضمن میں سبق آموز ہے۔ یہ ملک قدرتی وسائل سے اتنا مالا مال تھا کہ اسے دنیا کا امیرترین ملک ہونا چاہیے تھا اور وہاں صنعتی ترقی اعلیٰ پیمانے پر ہوتی، تاہم 1942ء کی فوجی بغاوت کے بعد کی کوششوں کے طفیل اور انتہائی تعریف والے اقتصادی معجزے کی وجہ سے اب برازیل کے اکثر باشندوں کی حالت ایتھوپیا کے لوگوں جیسی ہے، جو مشرقی یورپ کی صورتحال سے انتہائی ابتر ہے۔ایل سلواڈور میں ہنگامی حالات نافذ ہوچکے تھے اور عوام کے خلاف جنگ شروع ہوچکی تھی، جس کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل تھی۔ پہلا حملہ ریوسمپل میں ایک بہت بڑا قتل عام تھا، جس میں ھونڈراس اور ایل سلواڈور کی افواج نے مشترکہ طور پر حصہ لیتے ہوئے 4سو افراد کو ہلاک کیا۔ معصوم بچوں کو کلہاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور عورتوں کو اذیتیں دے کر دریا برد کیا گیا۔ کئی دنوں تک ان کے اعضا ندی میں تیرتے رہے۔ وہاں چرچ کے مبصرین موجود تھے، چنانچہ یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔ تاہم امریکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کو رپورٹ کے قابل نہیں سمجھا۔
اس جنگ کے اہم شکار کسان تھے اور ان کے ساتھ مزدور، طلبہ، مذہبی راہنما یا وہ لوگ تھے جن پر عوامی مفادات کے لیے کام کرنے کا شک تھا۔ تشدد کے آخری برس یعنی 1980ء میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی جو 1981ء کی ابتدا میں تیرہ ہزار تک جا پہنچی۔ ایل سلواڈور کی فوج کو دی جانے والی تربیت کے نتائج عیسائی پادریوں کے ایک جریدے ”امریکا“ میں ڈینپل سینتیاگو نے وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے کیتھولک پادری کی حیثیت سے ایل سلواڈور میں کام کیا تھا۔ وہ ایک کسان عورت کا ذکر کرتے ہیں جو ایک دن گھر واپس آئی تو دیکھا کہ اس کے تین بچے، اس کی ماں اور بہن میز کے اردگرد بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی گردن میز پر احتیاط سے رکھی تھی اور ہاتھ سر پر اس طرح دھرے ہوئے تھے گویا یہ لاشیں سر سہلا رہی ہیں۔ سلواڈور نیشنل گارڈ کے قاتل اٹھارہ ماہ کے ایک بچے کا سر مناسب جگہ پر نہیں رکھ سکے تھے، چنانچہ اس کے ہاتھ کیلیں لگا کر جمائے گئے تھے۔ خون سے بھرا ہوا پلاسٹک کا ایک مرتبان میز کے بیچ میں نمائش کے لیے رکھا ہوا تھا۔
سنتیاگو کے ریونڈ بشپ کے مطابق وحشت کے ایسے مناظر تھے کہ ایل سلواڈور میں لوگ صرف ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ہلاک نہیں کیے جاتے تھے۔ ان کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں جو بعد ازاں خنجروں یا برچھیوں پر سجائی جاتی ہیں اور کارروائی کا لرزہ خیز منظر پیچھے چھوڑا جاتا ہے۔ ایل سلواڈور کی پولیس لوگوں کے نہ صرف جنسی اعضا کاٹتی ہے بلکہ وہ ان کے حلق میں بھی ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ نیشنل گارڈ والے نہ صرف عورتوں سے زنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے پیٹ کاٹ کر ان کے چہرے ان ہی کی انتڑیوں وغیرہ سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ بچوں کو قتل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں آہنی تاروں پر گھسیٹا جاتا ہے تاکہ ان کا گوشت ان کی ہڈیوں سے علیحدہ ہو جائے جبکہ والدین کو یہ منظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ہند چینی خطے میں جنگوں کا یہی عمومی نمونہ تھا۔ 1948ء میں محکمہ خارجہ نے تسلیم کیا تھا کہ ہوچی منہ کی قیادت میں ویت کانگ کی فرانس مخالف مزاحمت ویت نام کی قومی تحریک تھی، تاہم ویت کانگ نے اقتدار مقامی حکمران طبقے کے حوالے نہیں کیا۔ انہوں نے آزادانہ ترقی کا انتخاب کیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مفادات کو نظر انداز کیا۔تشویش کی بات یہ تھی کہ اگر ویت کانگ کامیاب ہو گئے تو یہ وائرس پورے خطے میں پھیل جائے گا۔ اگر آپ وائرس کا شکار ہوں تو کیا کریں گے؟ پہلے تو اسے تباہ کریں گے، بعد ازاں متاثرہ لوگوں کو بے ضرر بنائیں گے، تاکہ بیماری نہ پھیلے۔ بنیادی طور پر تیسری دنیا میں امریکا کی یہی حکمت عملی رہی ہے۔ اگر ممکن ہو تو وائرس کی تباہی کا ذمہ مقامی افواج کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ نہ کر سکے تو پھر آپ کو اپنی فوج بھیجنی پڑے گی۔ ویت نام ان مقامات میں سے ایک تھا جہاں ہم نے براہ راست مداخلت کی۔
٭جس وقت امریکا ویت نام میں آزادانہ ترقی کی بیماری کو ختم کر رہا تھا تو دوسری جانب 1965ءمیں انڈونیشیا میں سہارتو کے ذریعے فوجی بغاوت، 1972ءمیں فلپائن میں مارکوس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ اور جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں مارشل لاءکی پشت پناہی کر کے اس بیماری کو پھیلنے سے روکا گیا۔انڈونیشیا میں سہارتو کی فوجی بغاوت کا مغرب نے خیر مقدم کیا، کیونکہ اس نے عوامی پذیرائی کی حامل سیاسی جماعت کو تباہ کر دیا۔ کچھ ماہ کے دوران سات لاکھ لوگ قتل کیے گئے، جن میں اکثریت بے زمین کسانوں کی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے جیمز ایسٹن نے اسے ایشیا میں امید کی کرن قرار دیا اور خوشی کے مارے اپنے قارئین کو اطلاع دی کہ کامیابی میں امریکا کا ہاتھ ہے۔
٭آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے حملہ اور اس کے الحاق کو جائز قرار دیا۔ آسٹریلیا مشرقی تیمور کے تیل کے ذخائر کے استحصال کے لیے یہ کہہ کر انڈونیشیا کا ساتھی بنا کہ ”دنیا بے رحم جگہ ہے جو طاقت کے ذریعے علاقوں پر قبضے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے“۔ لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اسی آسٹریلیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ بڑے ممالک کو اپنی چھوٹی پڑوسی ریاستوں پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسے اقدام کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ گویا زہرخند اور تشکیک کی کوئی بھی حد مغرب کے اخلاق پرستوں کو پریشان نہیں کر سکتی۔ (جاری ہے)
