صدر ضیاء الحق کے طیارے کو اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا؟

اگست میں صدر ضیاءالحق کا خصوصی طیارہ سی ون تھرٹی جس میں کئی اعلی فوجی افسران کے علاوہ اس وقت کا امریکی سفیر رافیل بھی ہم سفر تھا، ایک پراسرار حادثے میں بہاولپور کے نزدیک فضا ہی میں جل کر راکھ ہوگیا تھا۔ ہمارے اس وقت کے آہنی صدر، کئی اعلیٰ فوجی افسران اور امریکی سفیر سمیت اس حادثے کے نتیجے میں اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ یہ اس قدر اندوہناک حادثہ تھا کہ اس کے بعد پاکستان بدترین خطرے کی زد میں داخل ہوگیا تھا۔
واضح رہنا چاہئے کہ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور ہی میں پاکستان نے ایٹمی قو ت بننے کی جانب تیزی و پھرتی دکھائی تھی۔ لاتعداد دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود صدر ضیاء الحق اور ہماری مسلح افواج نے امریکا کے بندش کے مطالبوں کے آگے جھکنے سے انکا ر کردیا تھا۔
مذکورہ طیارے کی تباہی کے بارے میں یوں تو بہت سی کہانیاں پیش کی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ جنرل ضیاءالحق کو امریکی منشا و ہدایات کے برعکس ایٹم بم کی تیاری مسلسل جاری رکھنے کی سزا دی گئی تھی۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی ہینری کیسنجر نے سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی اور انہی جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں اسے عملی جامہ پہنایا بھی تھا۔ اسلام دشمن مخفی قوتوں نے صدر ضیاء الحق پر بھی کماحقہ اطاعت نہ کرنے کی بہت بھاری سزا نافذ کی تھی۔ دونوں کا جرم ایک ہی تھا۔ وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو بھی کسی کی پروا کئے بغیر ایک آزاد ایٹمی قوت بنانا تھا۔
جان گونتر ڈین میں بھارت میں مقیم امریکی سفیر تھے۔ سفارت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے معروف امریکی جریدے ”ورلڈ پالیسی جرنل“ میں اپنا ایک مضمون شائع کروایا تھا جس میں اس نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق کے قتل میں اسرائیلی موساد شریک تھی۔ ڈین کو یقین تھا کہ اسرائیل، پاکستان کو ایک نئی ایٹمی قوت بننے سے روکنا چاہتا تھا۔ مضمون میں اس نے لکھا تھا کہ اس سے پہلے اسرائیل نے عراق میں بھی ایٹمی تنصیبات پر بھی براہِ راست حملہ کیا تھا۔ گونتر ڈین کہتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے جب واضح کیا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا ہے، تو اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لحاظ سے بہت سارے خدشات لاحق ہوگئے تھے۔ مضمون میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستانی ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے حوالے سے اسرائیل حمایتی امریکی پالیسی ساز، امریکی حکومت پر اسرائیل سے تعاون کے لئے دباﺅ ڈالا کرتے تھے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سفیر جان گونتھر ڈین کے مطابق جب انہوں نے جب امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ پر اس مسئلے سے متعلق اپنا نقطہ نظر واضح کیا اور طیارے کی تباہی و اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ کی تفصیلی تحقیقات پر اصرار کیا تو اسے ذہنی طور پر معذور شخص قرار دے کر سفارتی عہدے سے ہٹا دیا گیا اور میڈیکل و سیکیوریٹی کلیئرینس بھی نہیں دی گئی۔ سفیر کے مطابق پہلے تو اسے آرام کی غرض سے چھ ہفتوں کے لئے سوئٹزر لینڈ بھیجا گیا اور بعد ازاں صرف اپنا سامان پیک کرنے کی غرض سے دوبارہ بھارت بھیجا گیا۔ گونتھر ڈین بیان کرتا ہے کہ جب وہ بھارت میں سفیر تھا تو اسرائیل کے متعدد حامی امریکی ارکانِ کانگریس اور دیگر پالیسی ساز اس سے مستقل طور پر کہتے رہتے تھے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام سمیٹنے کے لیے وہ اسرائیلیوں کے ساتھ تعاون کیا کرے۔ یہ بھی ہدایت دی جاتی تھی کہ وہ حکومتِ بھارت کو اسرائیل کا زیادہ حمایتی بننے پر زور دیتا رہے۔ سفیر نے انکشاف کیا کہ چونکہ اسرائیلی پالیسیوں سے اسے مکمل اتفاق نہیں تھا، اس لیے اسرائیل نے خود اسے اس وقت بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی جب میں وہ لبنان میں امریکا کی جانب سے سفیر متعین تھا۔ اس نے یہ بھی آگاہ کیا کہ جنرل ضیاءالحق کے طیارے کی تحقیقات کے لیے پاکستان میں متعین سفیر رافیل کے خود بھی حادثے میں ہلاک ہونے کے باوجود امریکا نے ایف بی آئی یا دیگر کسی بھی تحقیقی ایجنسی کو مکمل تحقیق کی ہدایت نہیں کی تھی اور نہ ہی امریکا نے پاکستان پر اس حوالے سے زیادہ دباو ڈالا حالانکہ کسی ملک کے اندر امریکی سفیر کی اس طرح ہلاکت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ امریکی اس طرح کے واقعات کی پاداش میں حکومتیں اتھل پتھل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا کرتے۔ (جان گوتھر ڈین کے ان انکشافات کی تفصیل گوگل میں سرچ کرکے پڑھی جا سکتی ہے)
جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے سے متعلق یہ ایک اندرونی اہم گواہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں پر اسرائیل کا ہمہ وقت دباﺅ کس قدر زیادہ ہوتا ہے، اور اسرئیل کسی بھی ملک میں آگے بڑھ کر خود بھی کوئی دہشت گردانہ کارروائی کر سکتا ہے۔ آج کل ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والا بھی یہی اسرائیل ہے۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ موساد ہی نے اسلامی دنیا کے تقریباً پندرہ ایٹمی سائنسدانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے کئی مقامات پر ہلاک کیا ہے۔
اسرائیل کی یہ ترک تازیاں صرف پاکستان یا اسلامی ممالک تک محدود نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی لابی اس ہر اس شخص کے درپے ہوجاتی ہے جو اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہو۔ امریکا ہی کے ایک اور سیاسی مبصر نے بھی کچھ عرصہ قبل اسی مانند ایک اور انکشاف کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو ہلاک کرنے میں بھی اسرائیل ملوث تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو صہیونی قوتوں کی جانب سے نشانہ بنانے سے متعلق سابق امریکی سفیر کے انکشافات نئے نہیں ہیں۔ اسی طرح سابق امریکی انٹیلی جنس ڈائرکٹر ڈاکٹر جان کولمین تصدیق کرتا ہے کہ ضیاءالحق کے طیارے کو تباہ کرنے میں صیہونی ’کمیٹی آف تھری ہنڈریڈ‘ کا اصل ہاتھ تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کے طیارے پر Frequency ELF کے ذریعے پرواز کے فوراً بعد حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد طیارہ میدان میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ ”کمیٹی آف تھری ہنڈریڈ“ کو پھر جہاز میں موجود کئی امریکی افسران کی زندگیاں بھی قربان کرنے میں کوئی جھجک باقی نہیں رہی تھی۔ ان کے مطابق جنرل ضیاءالحق کو ترکی کی خفیہ سروس نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ وہ جہاز کے سفر سے محتاط رہیں کیونکہ فضائی بلندی پر انہیں بمباری کرکے ہلاک کردیا جائے گا۔ اس تنبیہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی ضیاءالحق نے بطور ضمانت امریکی ٹیم کو اپنے طیارے میں سوار کروا لیا تھا۔ میرے ذہن میں اس امر پر کبھی کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ جنرل ضیاءالحق کو قتل کیا گیا تھا۔
(کتاب Committee of Three Hundred ۔ ترجمہ راقم۔ ص 25)