امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں

نوم چومسکی ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو 1913ء میں روس سے ترکِ وطن کرکے امریکا میں جا بسا تھا۔ ان کی ولادت 1928ء میں امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیار کیا، وہ لسانیات کے عالمی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور بائیں بازو کے چوٹی کے دانشوروں کی پہلی صف میں شامل ہیں۔ امریکی پالیسیوں کے زبردست نقاد ہیں اور اسرائیل کے وجود کے حامی ہونے کے باوجود اس کی جارحیت، تشدد اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی کے احیا و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس میں سند کا درجہ دیا جاتا ہے۔

نوم چومسکی کے نزدیک امریکا ایک استعماری ریاست ہے جس کی پالیسیوں کا دائرہ عالمی دہشت گردی کے گرد گھومتا ہے۔ وہ اپنے ملک کو دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست قرار دیتے ہیں اور حقائق و دلائل کے ساتھ اسے ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے ویتنام پر امریکی فوج کشی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہرین کی قیادت کی، جس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ امریکا کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی، افغانستان پر امریکی حملہ اور عراق پر امریکا کی فوج کشی پر بھی انہوں نے کھلے بندوں تنقید کی اور اسے امریکا کی استعماری پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے امریکی پالیسیوں اور اقدامات کے اصل مقاصد کو بے نقاب کیا۔ ان کی ایک مختصر کتاب کا اُردو ترجمہ ‘چچا سام کیا چاہتا ہے؟’ کے نام سے جناب اسلم خواجہ نے کیا ہے اور شہر زادبی۔155، بلاک5 ، گلشن اقبال کراچی نے 88صفحات کا یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے موجودہ عالمی تناظر میں امریکا کے کردار اور اس کی پالیسیوں کے تاریخی پس منظر اور مقاصد کی وضاحت کی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق واضح طور پر بائیں بازو سے ہے، اس لیے ان کی تنقید و تجزیہ اور بحث و گفتگو میں بائیں بازو کے افکار و رجحانات کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ البتہ انہوں نے اس دوران جن حقائق کا انکشاف کیا ہے اور امریکی پالیسیوں کے جس تاریخی تسلسل کی نشاندہی کی ہے وہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے پڑھنے کی چیز ہے اور سیاسی و دینی کارکنوں کے لیے تو اس کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ پوری کتاب کا خلاصہ تو مشکل بات ہے، البتہ اس کے چند اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:

٭امریکا اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات کے تانے بانے امریکی تاریخ کی ابتدا سے ملتے ہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم ہی اس ضمن میں اہم موڑ تھی، اس لیے آئیے وہاں سے ابتدا کرتے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے ہمارے کئی صنعتی مخالفین شدید کمزور ہو گئے یا مکمل طور پر تباہ، جبکہ امریکا نے اس جنگ سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا۔ ہمارا ملک براہ راست حملے کا ہدف نہیں بنا اور اس دوران امریکا کی پیداوار تین گنا بڑھ گئی۔

جنگ سے قبل نئی صدی کے آغاز سے ہی امریکا دنیا کا سرکردہ صنعتی ملک بن چکا تھا اور یہ اس صدی کے آغاز سے ہی تھا، لیکن اب ہمیں دنیا کی دولت کا پچاس فیصد ہاتھ لگ گیا اور دونوں سمندروں بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ کاہل کے دونوں ساحل ہمارے زیردست تھے۔ تاریخ میں اس سے قبل کبھی بھی کسی ایک ملک کو دنیا پر اتنا کنٹرول یا اتنا زبردست تحفظ حاصل نہیں رہا تھا۔ امریکی پالیسیوں کا تعین کرنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا دنیا میں پہلی عالمگیر طاقت کے طور پر ابھرے گا اور جنگ کے دوران اور اس کے بعد وہ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی کررہے تھے کہ جنگ کے بعد کی دنیا کو کیا صورت دی جائے۔ چونکہ یہ ایک کھلا سماج ہے اس لیے ہم ان منصوبوں کو دیکھ اور جانچ سکتے ہیں جو انتہائی واضح اور دورس نتائج کے حامل تھے۔ امریکی منصوبہ ساز اس بات پر متفق تھے کہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ ان میں محکمہ خارجہ سے لے کر خارجہ تعلقات کی کونسل سے تعلق رکھنے والے اہلکار شامل تھے۔ تاہم یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جائے؟ اس پر مختلف نقطہائے نظر ضرور تھے۔

٭جارج کینان جو 1950ء تک محکمہ خارجہ کے پلاننگ اسٹاف کے سربراہ رہے ہیں، امریکی پالیسی سازوں میں سب سے زیادہ ذہین اور جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل کرنے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اگر آپ اپنے ملک (امریکا) کو سمجھنا چاہیں تو پھر پالیسی پلاننگ سٹڈی نمبر 32کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ دستاویز کینان نے 1948ء میں محکمہ خارجہ میں منصوبہ ساز عملے کے لیے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:

ہمارے پاس عالمی دولت کا تقریباً نصف ہے، جبکہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا 3.6فیصد ہے۔ اس صورتحال میں ہم حسد اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام تعلقات کے ایک ایسے انداز کا قیام ہوگا جو ہمیں عدم مساوات کی یہ حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے۔ یہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں جذباتی ہونے اور دن کو سپنے دیکھنے کی عادت ترک کرنا ہو گی اور ہر جگہ اپنی توجہ کا مرکز قومی مقاصد کو بنانا ہوگا۔ ہمیں ان مبہم اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد مثلا ًانسانی حقوق، لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے اور جمہوری عمل کی باتوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں طاقت کے براہ راست تصور سے مدمقابل ہونا پڑے گا، اس لیے ہم جس حد تک آدرشی نعروں سے بچے رہیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔

ظاہر ہے کہ یہ پالیسی پلاننگ اسٹڈی نمبر 32انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے آدرشی نعروں کا طوفان اٹھانا ضروری تھا، لیکن یہاں پالیسی ساز ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ ان ہی خطوط پر 1950ء میں لاطینی امریکا کے ممالک میں متعین سفیروں کی بریفنگ کے دوران کینان نے کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد لاطینی امریکا میں ہمارے خام مال کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں اس خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو امریکی جاسوس رپورٹوں کے مطابق لاطینی امریکا میں پھیل رہی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے۔ جو لوگ اس خیال کی وکالت کررہے تھے ان کے خیالات کچھ بھی ہوں، لیکن امریکی پالیسی سازوں نے اسے کمیونزم ہی قرار دیا، چاہے وہ چرچ کے اپنی مدد آپ کے گروہ تھے یا کوئی اور، بہرصورت اگر وہ اس بدعت کے حامی ہیں تو وہ بھی کمیونسٹ ہیں۔

اس کے بعد کینان ان ذرائع کا ذکر کرتے ہیں جو ہمیں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے تھے جو اس بدعت کا شکار ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ:قطعی جواب ممکن ہے کہ نا پسندیدہ ہو… لیکن ہمیں مقامی حکومتوں کے ہاتھوں ہونے والے پولیس شاہی اور جبر و استبداد کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ قابلِ ندامت عمل نہیں، کیونکہ کمیونسٹ لازمی طور پر غدار ہیں۔ اس لبرل حکومت سے جس میں کمیونسٹوں کو شامل ہونے کے مواقع میسر ہوں سخت گیر حکومت بہتر ہے۔ امریکا کے منصوبہ سازوں نے ایک کے بعد ایک اعلیٰ سطحی دستاویزات میں یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ امریکی سربراہی میں نے عالمی نظام کو بنیادی خطرہ تیسری دنیا کی قوم پرستی سے ہے، جسے کبھی کبھار الٹرا نیشنلزم بھی کہا گیا ہے اور جس سے مراد ہیں قوم پرست حکومتیں جو عوام کا معیار زندگی فوراً بہتر کرنے کے عوامی مطالبے اور مقامی ضروریات کے لیے پیداوار کے مطالبے کو اہمیت دیتی ہیں۔ منصوبہ سازوں کا بنیادی مقصد جسے وہ بار بار دہراتے ہیں یہ ہے کہ اس قسم کی الٹرا نیشنلسٹ حکومتوں کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے اور اگر ان میں سے کوئی اتفاق سے اقتدار حاصل کر بھی لے تو اسے ہٹا کر ایسی حکومت قائم کی جائے جو ملکی اور غیر ملکی سرمائے کی نجی سرمایہ کاری، برآمدی تجارت کے لیے پیداوار اور منافع بیرون ملک بھیجنے کی حمایتی ہو۔ جبر و استبداد کے شکار کسی بھی ملک میں جمہوریت اور سماجی اصلاحات کی مخالفت کو کبھی بھی عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی، سوائے اس مختصر سے ٹولے کے جو امریکی تجارت سے وابستہ ہوتا ہے اور اسے ان سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ امریکا طاقت پر انحصار کی توقع کرتا ہے اور فوج سے اتحاد قائم کرتا ہے۔ کینیڈی دور کے منصوبہ سازوں کا کہنا تھا کہ فوج لاطینی امریکا میں کسی بھی سیاسی گروہ کے مقابلے میں کم امریکا دشمن ہے۔ چنانچہ کسی بھی مقامی عوامی گروہ کو جو ہاتھ سے نکل رہا ہو کچلنے کے لیے فوج پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے)