قبر سے لڑائی: حب الوطن کے بدلے ہے بغض الوطن یہاں

حالیہ برسوں میں انتہا پسند ہندوں کی 300 سو سال قبل وفات پانے والے مغل بادشاہ اورنگزیب سے نفرت عروج پر ہے۔ یہ نفرتیں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن اس بار اس احتجاج اور ان کے مقبرے کو مسمار کرنے کی وجہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم ‘چھاوا’ بتائی جاتی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کو اس فلم میں ایک ظالم، ہندو مخالف حکمران اور لٹیرے کے طور پر دکھایا گیا۔ جس کے بعد اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ ریاست میں حکمران جماعت بی جے پی اور شیوسینا کے کئی رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کر ڈالیں گے
کچھ ہوگیا زمانے کا الٹا چلن یہاں
حب الوطن کے بدلے ہے بغض الوطن یہاں

اورنگزیب پر ہندوؤں پر جزیہ لگا دینے کا الزام تھا، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ انہوں نے 80 قسم کے ٹیکس معاف کیے۔ جزیہ اس لیے عائد کیا گیا کہ مسلمانوں سے زکوٰة لی جاتی تھی، اگر ہندوؤں سے بھی زکوٰة لی جاتی تو یہ مذہبی آزادی کے تقاضے کے خلاف ہوتا، اس لیے اسلام نے غیرمسلم شہریوں پر الگ نام سے یہ ٹیکس مقرر کیا ہے اور اس کی مقدار نہایت قلیل ہے۔ پھر شریعت کے حکم کے مطابق اورنگزیب نے عورتوں، بچوں، مذہبی پیشواؤں، معذوروں اور غریبوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا اور جزیہ کے بدلے غیرمسلم عوام کے تحفظ کی گارنٹی دی گئی۔ اورنگزیب نے انڈیا پر 49 برس تک حکومت کی۔ ان کی وفات سنہ 1707 ء میں احمدنگر میں ہوئی تھی۔ اورنگزیب کی وصیت کے مطابق انھیں صوفی بزرگ ضیاء الدین شیرازی کی مزار کے پاس احمدنگر136 کلو میٹر دور انھیں دفن کیا گیا۔ اس وقت سے اس علاقے کا نام خلدآباد ہوگیا۔ سٹینلے لین پول نے اپنی کتاب میں لکھا کہ مغلوں کی تاریخ میں یہ سب سے پہلا بادشاہ ہے جو پکا مسلمان تھا۔ جو ممنوع چیزوں سے خود پرہیز کرتا اور دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا۔ اورنگزیب کے پاس صرف 88 روپے تھے جو ان کی ہدایت کے مطابق خیرات کردیے گئے اور انھوں نے اپنی موت سے پہلے درخواست کی کہ ان کے جنازے پر فضول خرچی نہ کی جائے۔

وصیت کے مطابق ان کی قبر پر کوئی مقبرہ بنایا گیا، نہ کوئی کتبہ یا نام لکھا گیا۔ ان کی تدفین کے اخراجات آخری ایام میں ٹوپی سی کر کمائی سے ادا ہوئے۔ اشوک کمار پانڈے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ 1707 ء میں اورنگزیب کی موت ہوئی اور ان کی ایک عام سی قبر بنی۔ 2025 ء میں لوگوں کو یاد آیا کہ پونے تیرہ روپے میں بنی یہ قبر ملک کے لیے خطرہ ہے۔ امریکی خاتون مؤرخ آڈری ٹروشکی نے اپنی نئی انگریزی کتاب Aurangzeb the man the and the myth میں، جس کا ‘اورنگزیب: ایک شخص اور فرضی قصے’ کے نام سے ترجمہ کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ماضی کے متعلق ایماندار رہتے ہوئے اورنگزیب کی مکمل تصویر پیش کریں۔ اورنگزیب اس طرح غلط بیانیوں کے انبار تلے سے بحیثیت ایک بادشاہ اور ایک انسان، کی بازیابی کو ممکن بنایا جاسکے جن کے بارے میں صدیوں سے ہم نے افواہوں کو من و عن قبول کرنے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے۔

آڈری نے آٹھ ابواب میں، جو محض 128 صفحات پر مشتمل ہیں، اورنگزیب کی وہ تصویر پیش کر دی ہے جو ان کی خوبیوں اور خامیوں کو پوری طرح سے عیاں کر دیتی ہے، کہ ان کے تعلق سے فرضی قصوں کا ایک ایسا جال بنایا گیا ہے جس میں لوگ پھنسے تو پھنستے ہی چلے گئے، جس کے نتیجے میں بقول آڈری اکیسویں صدی کے جنوبی ایشیا میں اورنگزیب کی شبیہ غلط بیانی کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اورنگزیب نے 49 سال تک 15 کروڑ انسانوں پر حکومت کی، ان کے دور میں مغلیہ سلطنت کی آبادی پورے یورپ کی آبادی سے زیادہ تھی اور وہ خود غالباً اپنے وقت کے سب سے امیرترین انسان تھے۔ جب 1707ء میں انہوں نے دنیا سے کوچ کیا تب ہندوستان جغرافیائی اور معاشی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھا، مگر اورنگزیب دنیا سے جاتے ہوئے خوش نہیں تھے۔ انہیں یہ لگ رہا تھا کہ ان کی زندگی ناکام رہی ہے۔ بستر مرگ سے اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں ایک اجنبی کی حیثیت سے آیا ہوں اور ایک اجنبی ہی کی طرح چلا جاؤں گا۔ اپنی مذہبی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس کی پاداش میں جلد ہی خدا کے عتاب کا سامنا کریں گے۔

مذکورہ خطوط سے اورنگزیب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس تصویر سے بالکل الگ ہے جو ہم سب کو دکھائی جاتی ہے۔ اورنگزیب کو یہ قلق تھا کہ وہ کماحقہ حکمرانی کے فرائض ادا نہیں کر سکے۔ اورنگزیب کے امراء میں 50 فیصد ہندو تھے جن میں مراٹھے سب سے زیادہ تھے، مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ چھترپتی شیواجی مہاراج، جو مراٹھا تھے، آخر دم تک ان کے لیے سردرد بنے رہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب جزیہ لیتے تھے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ برہمن پروہتوں، راجپوت اور مراٹھا درباریوں اور ہندو منصب داروں سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ جین، سکھ اور دیگر غیرمسلم عوام پر جزیہ کی ادائیگی فرض تھی، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں کچھ مخصوص حقوق فراہم کیے گئے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اورنگزیب نے ہندو مذہبی کتابوں کے تراجم پر بھی روک نہیں لگائی بلکہ رامائن کے فارسی تراجم تحفتاً قبول کیے۔ آڈری لکھتی ہیں کہ اورنگزیب بحیثیت ایک شر اور متعصب ہونے کے فرضی قصے کو بہت ہی کم تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر پھیلایا گیا۔

آج نتیجہ سامنے ہے، بی جے پی اور دیگر قوم پرست جماعتوں سے متفق نہ ہونے والے افراد بھی اورنگزیب کو متعصب کہتے ہیں۔ کھلے آسمان تلے ایک معمولی سی قبر میں دفنائے گئے اورنگزیب تاریخ کا ایک ایسا زندہ اوتار بن گیے ہیں جس میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے اور آگ کی چنگاریاں نکلتی رہتی ہیں۔ ملک کی حالیہ سیاست ان کے نام کو مکمل مٹانے کے درپے ہے، اسی لیے ان کے نام کی سڑک کو دوسرا نام دیا گیا۔ لیکن بقول آڈری اس طرح کی باتوں سے اورنگزیب کا نام مٹنے کی بجائے لوگوں کے ذہن پر مزید نقش ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کو اورنگزیب کی اولاد کہا جانے لگا ہے، غالباً اورنگزیب اس بات سے مطمئن ہوتے کہ انہیں فراموش کردیا گیا ہے لیکن لوگ انہیں بھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ قصوروار بی جے پی اور سنگھ پریوار ہے۔ معروف اسکالر رام پنیانی جن کی ہندوستانی تاریخ پر گہری نظر ہے کے مطابق، اورنگزیب اور شیواجی کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں بلکہ ایک سیاسی جنگ تھی، جو حکمرانوں کے درمیان ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، نہ اورنگزیب نے اسلامی نقطہ نظر سے یہ جنگ لڑی ہے اور نہ شیواجی کا حملہ ہندوؤں کے وقار کی حفاظت کے لیے ہوا۔ شیواجی کی فوج میں کئی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور اورنگزیب کا دربار بھی ہندو عہدیداروں سے بھرا ہوا تھا۔

ڈاکٹر بی این پانڈے نے 29 جنوری 1977 ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ اورنگزیب کو بت شکن اور ہندو کش ہونے کی بجائے مندروں اور گوردواروں کو جاگیریں اور عطیات دینے والے بادشاہ کے طور پر پیش کیا تو ارکان پارلیمنٹ کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ ایک بار اورنگزیب بنگال جاتے ہوئے بنارس کے قریب سے گزرے تو ان کی فوج میں شامل ہندو راجاؤں اور کمانڈروں نے وہاں ایک دن قیام کی درخواست کی، تاکہ ان کی رانیاں گنگا اشنان کر سکیں اور وشوناتھ دیوتا کی پوجا کریں۔ اورنگزیب راضی ہوگئے۔ انہوں نے فوج کے ذریعہ حفاظت کا پورا انتظام کیا۔ رانیاں اشنان سے فارغ ہوکر وشوناتھ مندر روانہ ہوئیں، تو اس میں بعض رانیوں کی عصمت ریزی کی گئی اور وہ زار و قطار رو رہی تھیں۔ اورنگزیب نے راجپوت کمانڈروں کے مطالبے پر منہدم کرنے کا حکم دیا۔ ڈاکٹر بی این پانڈے اپنی کتاب ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات میں لکھتے ہیں کہ مہاکال مندراجین، بالا جی مندرچترکوٹ، کاماکھیہ مندر گوہاٹی، جین مندر گرنار، دلواڑا مندر آبواورگرودواررام رائے دہرہ دون وغیرہ سے اطلاع ملی کہ ان کو جاگیریں اورنگزیب نے عطا کی تھیں۔ مؤرخوں کی تاریخ کے مطابق ایک نیا اورنگزیب ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔

ہندو تنظیموں کے رکن عالمگیر اورنگزیب کی علامتی تصاویر کو پبلک ٹوائلٹ اور کچرے کے ڈبوں پر لگا رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں جگہ جگہ اورنگزیب کے علامتی پتلے نذر آتش کیے جا رہے ہیں حالانکہ اورنگزیب عالمگیر کی شخصیت ہندوستان کے لیے ایک نعمت تھی
بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں
جلتے عوض چراغوں کے سینے کے داغ ہیں
سلطنتِ مغلیہ کی تہذیبی زوال پر مرزا غالب دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغِ ستم نکلے
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
اقبال نے جوکہا وہ لگتا ہے پورا ہوکر رہے گا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
یا یوں کہہ لیں
مسافر بھاگ وقتِ بے کسی ہے
ترے سر پر اجل منڈلا رہی ہے