عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین

عید آزاداں شِکوہِ ملک ودیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آزاد قوم کی عید مْلک و ملّت اور دین کی عظمت کے اظہار کا ذریعہ ہے ، جبکہ محکوم قوموں کی عید ایک غیرمنظّم اور بے ہنگم ہجوم سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ برطانوی غلامی میںاقبال نے مسلمانوں کوعید کا تہوار مناتے دیکھا تو اُن کادل حد درجہ مغموم ہوا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو سرزنش کی کہ ہندوستان میں سجدہ کرنے کی اجازت مل جانے سے یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ آزاد ہیں۔ ایک ہی فضا میں پرواز کرنے کے باوجود شاہین اور کرگس کے جہاں جدا جدا ہیںاور قوم کو یاد دلایا کہ
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی

ہر عید پر اقبال کی روح ہم سے سوال کرتی ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہماری عید شکوہِ ملک ودیں کی عکاس ہے؟ کیا ہم ایک جوئے کم آب سے نکل کر بحرِ بے کراں کی شکل اختیار کر چکے ہیں؟ کیا ہم شاہین کہلا سکتے ہیں یا پہلے کی طرح کرگس بنے ہوئے ہیں؟ عید انسانی فطرت کا تقاضا ہے دنیاکی ہرقوم اور مذہب کے لوگوں کے، تہوار،ان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ مسلمان قوم اپنے عقائد اور ملی اَقدار کی بنیاد پر دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے، اس لیے ان کی عید کی بھی امتیازی شناخت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

دو ارب مسلمان اپنی ستاون ”خودمختار” مملکتوں رمضان کے با برکت مہینے میں روزوں، نمازوں اور صدقات و خیرات کے باوجودعید الفطر اس حال میں منارہے ہیں کہ غزہ میں سفاک اسرائیلی حکمرانوں کے ہاتھوں جاری فلسطینیوں کے قتل عام پر عالمی طاقتیں اور مسلم حکمران زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکے۔48 ہزار سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں۔ کشمیر کے مسلمان بھی انسانیت سوز ریاستی مظالم کا شکار ہیں۔مسلمانوں کی اس بے بسی کا سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ہے کہ ”قریب ہے کہ دیگراقوام تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں”۔ سوال ہوا” کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ جواب ملا ”نہیں، تمہاری تعداد تو بہت ہوگی لیکن یہ کثرت سیلاب کی جھاگ کی طرح ہوگی کیونکہ تمہارے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف رچ بس گیا ہوگا۔” قرآن تو ضمانت دیتا ہے کہ” تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو”۔مسلمانوں کی بے وقعتی کی ایک بڑی وجہ ” ادخلوا فی السلم کافہ ” (اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ) کے خدائی حکم کو عملاً نہ ماننا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہم نے معاشرت، معیشت، سیاست، عدالت، تعلیم، کاروبار، معاملات، غرض زندگی کے ہر شعبے سے اسلام کو عملاً بے دخل کرکے دین کو رسمی عبادات تک محدود کردیا ہے۔

رمضان المبارک کا ماہِ مقدس اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، مغفرتوں اور عنایات و برکات کا خزینہ ہے۔ نزول قرآن کی دولت، غزوۂ بدراور فتحِ مکہ بھی رمضانِ المبارک میں وقوع پذیر ہوئے ، روزے کی فرضیت کا شرف اورتراویح جیسی مسنون نماز بھی اس کی روحانی بہاروں کا ذریعہ ہے ہزار مہینوں سے افضل رات، ‘لیلة القدر’ بھی اسی میں ہے۔ بندۂ مومن اپنے رب سے لَو لگانے کے لیے اعتکاف بیٹھتا ہے ،باری تعالیٰ نے اپنے بندوںکے لیے اِنعام واِکرام کا ایک دن مقرر فرما دیا۔ چنانچہ شبِ عید (چاند رات)کو انعام کی رات قرار دیا گیا۔

روزے دار اِنعام و اِکرام سے فیض یابی کے بعد شوال المکرم کی پہلی صبح کو یومِ تشکّْر مناتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘عیدالفطر کی صبح اللہ تعالیٰ فرشتوں کوزمین پر بھیجتا ہے ،وہ راستوں کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ندا دیتے ہیں:اے امتِ محمد! اپنے ربِ کریم کی طرف نکلو ،وہ اجرِ کثیر عطا کرے گا، بڑے گناہوں کو معاف فرمادے گا،جب وہ عیدگاہ کی طرف آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے:مزدور جب اپنا کام مکمل کر لے تو اس کی کیا جزا ہے،وہ عرض کرتے ہیں: اے ہمارے معبود! اُس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا بدلہ دیا جائے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو ، میں نے انہیں اپنی رضا اور مغفرت سے نوازدیا ہے اور فرماتا ہے: اے میرے بندو! مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ! آج تم جو بھی سوال کرو گے ،میں تمہیں عطا کروں گا۔’

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جسم کی طرح دل کو بھی تکان لاحق ہوتی ہے، دلوں کو وقفہ وقفہ سے آرام دو۔ دل کی ناخوشگواری اس کو اندھا بنا دیتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ میں اپنے نفس کو کسی قدر باطل سے دل لگی کرنے دیتا ہوں تاکہ اسے حق پر چلنے میں مدد ملے۔ آزاد اور محکوم مسلمانوں کی عید میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آزاد مسلمان کی عید میں دین و حکومت کی شان و شوکت ہوتی ہے جبکہ غلاموں کی عید کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کا ہجوم کچھ دیر کے لیے ایک جگہ جمع ہوجائے۔ امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری فرماتے تھے کہ نئی نسل کے نوجوانوں کوقرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے، اگر وہ سید احمد شہید کی طرح نہیں پڑھ سکتے تو کم از اقبال کی طرح پڑھ لو۔آج کا مسلمان ایمان کی اس حلاوت و طاقت سے محروم ہے جو صحابہ کرام کو حاصل تھی۔ اس وقت اس کرۂ ارض پر بحیرۂ روم کے کنارے آباد غزہ نامی پٹی کے سوا ساری دنیا سامراج کی محکوم ہے۔ مکمل تباہی اور بھوک کے باوجود غزہ میں مایوسی نام کو نہیں۔ استقبالِ رمضان کے لیے بچوں نے اپنے خیموں کو برقی قمقموں سے سجایا اور عیدالفطر کی تیاری بھی اسی جوش و خروش سے ہورہی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں سارا غزہ تلاوت قرآن سے گونجتا رہا۔ تاریک راتوں میں بچوں اور بچیوں کی خوش الحانی کانوں میں رس گھولتی رہی۔ اسلاف اگر تلواروں کے سائے میں سجدے کیا کرتے تھے تو وہ بموں کی بارش میں تراویح اداکررہے ہیں۔ غزہ کی سحری جنگلی چٹنی اور افطار میں گھاس کا سوپ ہوتا ہے جسے ‘خوش ذائقہ’ بنانے کے لیے اس پر لیموں چھڑکا جاتا ہے۔ ایک طرف فلسطینیوں پر موت بم بن کر گر رہی ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں سے محبت کرنا استعماری طاقتوں کے نزدیک جرم ہے۔ اس پر اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آتا ہے کہ
اِس سرزمیں کے ساتھ محبت کے جرم میں
جو عاشقوں کے ساتھ ہوا کچھ نہ پوچھیے
محکوم مسلمانوں میں بیداری کی لہر اٹھتی ہے تو حکمران کی ساحری اسے سلادیتی ہے
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری
طبقاتی تقسیم نے بھی شکوہ ملک ودین کی منزل دور اورامارت و غربت کے فرق نے غریب کو بے بس کردیا ہے
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
غریب والدین عید پراپنی اولاد سے منہ چھپاکر کمروں میں بندہوجاتے ہیں
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کرکے
دوست احباب بھی ایک دوسرے کا سامناکرنے سے کتراتے ہیں۔ ظفر اقبال کے بقول
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
کاش ہم ذہنی اور معاشی محکومی سے نجات پاکر شکوہِ ملک و دین کا ذریعہ بن جائیں اور ہماری عید ہجوم مومنین کے بجائے عید آزادں بن جائے۔