میانمار میں زلزلہ۔ایک زمردی جزیرے کی یاد

جس وقت ہمارے ہاں لوگ جمعة الوداع کی تیاریوں میں مصروف تھے’ عین اس وقت میانمار کے شہر منڈالے سے کچھ دور’ زمین کی پرتوں نے جنبش کی اور آن کی آن میں کنکریٹ کی عمارتیں ریت کے محل کی طرح دھڑام سے نیچے آنے لگیں۔ میانمار اور تھائی لینڈ سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق زلزلے کے ابتدائی جھٹکوں سے متعدد رہائشی و زیر تعمیر عمارات منہدم ہو گئیں جن میں سینکڑوں افراد دب گئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.7 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی۔ سوشل میڈیا پر جان بچا کر بھاگتے لوگوں اور عمارتوں کے گرنے کے مناظر دیکھ کر تھائی لینڈ کے زمردی جزیرے یاد آ گئے جو دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہیں۔

پتایا ‘سیام یعنی تھائی لینڈ کے ساحل پر مغرب کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوں تو دُور سمندر میں کچھ زمردی جزیرے دکھائی دیتے ہیں۔ صاف موسم میں بہت صاف’ دھند بھری فضا میں محض ہیولے۔ مقامی زبان میں کوہ لارن اور سیاحوں کی زبان میں کورل آئی لینڈز کہلانے والے یہ سرسبز جزیرے خوبصورت ریتلے ساحلوں اور ڈوبتے چڑھتے سورج میں سمندر کے رنگوں کیلئے مشہور ہیں۔ سفید بلکہ کچھ کچھ نقرئی ریت’ جہاں یہ ریت ختم ہو وہاں سے ہریالی شروع۔ ‘پتایا’ سیام کے دارالحکومت بنکاک کے ٹریفک جام اور بھیڑ بھاڑ سے 150 کلومیٹر دُور ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ساحلی شہر ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ پتایا جسے سیامی ‘پتیہ’ کہتے ہیں’ ان لوگوں کی جنت ہوسکتا ہے جو راتوں کو رنگارنگ اور قسم در قسم سورجوں سے روشن کرنے کی تلاش میں ہوں، لیکن ان لوگوں کے لیے یہ کوئی خاص دلکشی نہیں رکھتا جو قدرتی آفتاب وماہتاب کے طلوع وغروب کی تلاش میں جہاں گردی کرتے ہوں۔ بنکاک مجھے کبھی پسند نہیں آ سکا’ اگرچہ ایک دنیا اس کے گن گاتی ہے۔ پسند نہ آنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن تھائی لینڈ کے مختلف جزیروں کی بات کریں تو وہ الگ دنیائیں ہیں۔پانی اور سبزے سے بنی ہوئی وہ دنیائیں جہاں سب کچھ فراموش کرکے نیلے’سبز رنگوں کے درمیان وقت گزرتا ہے بلکہ وقت گزرتا نہیں پَر لگا کر اُڑتا ہے۔

جہاں گرد پتایا سے موٹر بوٹ پر سوار ہوا تو چپٹے خد وخال والی قوم خال خال تھی۔ جو تھی وہ کھڑے نقش و نگار والی گوری نسل کے سیاحوں کی خدمت میں مصروف اور منہمک۔ ملاح اور ان کے مددگار! سیامی لوگ نسبتاً چھوٹے قد کے’ کھلی سانولی رنگت والے اور عام طور پر بے ضرر لوگ ہیں اور دنیا بھر میں جہاں جہاں پیسے والی مخلوق سیر کرنے آتی ہو وہاں کاروباری خوش اخلاقی خوشامد کے ساتھ ایسی چالاکی سے گوندھی جاتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہاں ایک کی حد ختم ہوئی اور دوسری شروع ہوگئی۔ موٹر بوٹ روسی سیاحوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ روس میں چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں اور یہ سیاح انفرادی طور پر اور ٹولیوں کی شکل میں گرم ساحلوں کی طرف اس طرح پرواز کررہے تھے، جیسے سائبیریا کے پرندے گرم پانیوں کا رخ کرتے ہیں۔ سیامی زبان کے گنے چنے’رٹے رٹائے لفظوں اور کام چلاؤ جملوں سے سیام فتح کرنے والے روسی غالب اکثریت میں ہیں۔انگریزی زبان جاننے والا روسی کوئی کوئی ہے۔مردوں کی سرخ رنگت جس میںذرا جھجھک اور تکلف کے ساتھ سفید رنگ بھی شامل ہوجاتاہے۔چہرے کم و بیش سرخ سفید تہذیب کے نمائندہ۔ دورسے خوبصورت’ قریب سے دیکھنے پر مہاسوں’ کیلوں اور تلوں سے بھرے ہوئے۔ یہی چہرے ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کو پہنچتے بالکل بدل جاتے ہیں۔ خوبصورت بڑھاپا تو ہمارے یہاں ان بوڑھوں کا دیکھنے والا ہوتا ہے جن کے چہرے پر طمانیت’ شانتی اور اندر کا سکون نور بن کے چہرہ سازی کرتا ہے۔ ہم اپنے بوڑھوں کی خوبصورتی بہت کم دیکھتے ہیں حالانکہ یہ جوان حسن کو ماند کردینے والی خوبصورتی ہے۔

موٹر بوٹ کوہ لارن کے ساحل پر لگی۔ سیاحوں نے پہلی بار اس جزیرے پر پاؤں دھرے۔ سامنے پہاڑ’ سمندر اور ہریالی تین قریبی سہیلیوں کی طرح منتظر تھیں۔ قدرت کا کیا بھید ہے کہ پہاڑ’ سبزہ اور پانی جہاں کہیں یکجا ہوتے ہیں کھلے دل والوں کے لیے اپنا دل کھول دیتے ہیں۔ آنکھ کو سیراب کردینا ان تین سہیلیوں پر ختم ہے۔ کوہ لارن ہریالی بھری پہاڑی ڈھلوانوں کا نام ہے جو اُترتے اُترتے سفید ریت سے ہاتھ ملا کر رخصت ہوتی ہیں اور یہ سفید ریت سو دو سو قدم سمندر کی طرف چل کر فیروزی’سبز سمندر سے ہم آغوش ہوجاتی ہے۔ جزیرے کے مختلف رخوں پر چھ مختلف ساحل ہیں۔ ہر ساحل کا الگ نام اور جدا جدا سمندری رنگ۔ ٹوائن بیچ سب سے بڑی اور سب سے پُرہجوم۔ سمائی بیچ بعض لوگوں کے خیال میں بہترین۔ نوال بیچ جزیرے کے آخری سرے پر اور دور ہونے کی وجہ سے پُرسکون۔ ٹائن بیچ مناظر کے اعتبار سے عمدہ لیکن کم سہولتوں والی۔ ٹونگ لینگ اور تائیائے بیچ نسبتاً کم درجہ سمجھی جانے والی۔ لیکن ٹھنڈی سمندری ہوا کے رخ پر واقع سمائی بیچ سے ڈوبتے سورج کا منظر اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ عرفان صدیقی مرحوم کے شعر کی طرح
ہر طرف ڈوبتے سورج کا سماں دیکھیے گا
اِک ذرا منظر غرقابی ٔ جاں دیکھیے گا

ناریل کے درختوں تلے بدلتے آسمان کی رنگارنگی دیکھی اور سمندر پر روشنی پڑتے اور زاویے تبدیل ہوتے دیکھا تو ایسا لگا کہ جیسے یہ کوئی الگ دنیا ہے اور اس کے زمین آسمان بھی مختلف ہیں۔ سمندر’ آسمان’ روشنی’ ریت’ سبزہ اور اکیلا انسان۔ جیسے یہ زمین ابھی ابھی تخلیق ہوئی ہو اور یہ اس کا پہلا دن ہو۔ دل میں امنگ ہو اور پاؤں میں طاقت تو اس جزیرے کی سیر کو نکلئے۔ بتدریج بلند ہوتی پہاڑی کی چوٹی تک پہنچئے اور دُور تک ہرے فیروزی اور نیلے سمندر کا نظارہ کیجیے۔ یہ منظر آپ کی ساری تھکن اُتارکر ایک طرف رکھ دے گا۔ رات کو ستاروں بھرا آسمان اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ ہیروں بھرے جگمگ کرتے اس سیاہ مخملی کپڑے کو ہاتھ بڑھا کر چھو لو۔ دن بھر ناریل کے درختوں میں سرسراتی سمندری ہوا شام ہوتے ہی خنک نمی لے آتی ہے۔ بھیگے ہوئے دل کے ساتھ جسم بھیگتا اچھا لگتا ہے۔ ہر خوبصورتی میں ایک اداسی ہوتی ہے یا شاید یہ اداسی اندر ہوتی ہے جو منظر دیکھ کر نظارہ کرنے باہر نکل آتی ہے۔

سیام کا نام سب سے پہلے میں نے بچپن کی کسی کہانی میں سیامی بلّی کے حوالے سے پڑھا تھا۔ ایک زمانے بعد سیامی بلّی دیکھی تو معلوم ہوا کہ بیان کرنے والے نے اس گھنے ریشم والی معصوم سی دوست کو ٹھیک بیان کیا تھا، لیکن تھائی لینڈ کے پھل بھی الگ اور منفرد ہیں۔ خاص طور پر مینگوزٹین۔ سنگھاڑے جیسے رنگ کے بے کشش اور سخت چھلکے کے اندر ایسا رس بھرا نرم خوشبودار گودا ہوگا یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ لیچی کی طرح ذائقے میں مہک چھوڑ جانے والا مینگوزٹین اپنا اسیر کر لینے والا پھل ہے۔ کاش یہ پھل پاکستان میں بھی اُگایا جاسکتا۔ ویسے یہ کاش کا لفظ کا تو ‘بھات بس’ اور ٹک ٹک کو دیکھ کر بھی یاد آتا ہے۔ ہمارے یہاں تانگے اور چنگ چی کی طرح سستی اور عوامی سواری لیکن کہیں زیادہ آرام دہ’ محفوظ اور آسان۔ یہ عوامی سواریاں ہیں اور ہمارے یہاں بھی کارآمد ہو سکتی ہیں کیونکہ فی سواری پھیرے کا تصور اور عمل ہمارے یہاں پہلے سے موجود ہے۔کوہ لارن اور وہ ہلکا سبز اور گہرا نیلا سمندر آج تو تھائی لینڈ میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے یاد آیا لیکن یہ چھوٹا سا جزیرہ مجھے اکثر اُن تمام سرسبز جزیروں کی یاد دلاتا ہے جہاں میں کم از کم ایک بار جانا چاہتا ہوں لیکن اس زندگی ٔ مختصر میں ممکن نہیں۔اور سچ یہ ہے کہ دنیا تو بہت بڑی چیز ہے اللہ کی بنائی ہوئی کسی ایک خوبصورت چیز کو جی بھر کے دیکھنا اور اس کا حق ادا کرنا بھی ممکن نہیں۔ کبھی یہ شعر اسی کیفیت میں کہا تھا
اس اک گلاب کو جی بھر کے دیکھنا ہے مجھے
یہ کام زندگی ٔ مختصر میں کیسے ہو؟