عدم اعتماد ووٹنگ کے ذریعہ مسند اقتدار سے نکال باہر کئے گئے سابق وزیراعظم عمران خان نے عدم اعتماد ووٹنگ تحریک سے پہلے تاش کے آخری پتے کی طرز پر امریکا سے آئے سائفر پیغام کا بھرپور استعمال کیا اور امریکی مداخلت مردہ باد اور ہم کوئی غلام ہیں ایسے جذباتی نعروں سے اپنے پیروکاروں کے کانوں میں خوب رس گھولا۔
عمران خان اور ہمنواؤں نے دیگر سیاسی و غیر سیاسی قیادت کو امریکی غلام قرار دیا۔ سال 2022ء تا 2024ء یعنی اقتدار سے نکالے جانے سے لیکر امریکی صدارتی انتخابی مہم تک امریکی غلامی و مداخلت مردہ باد کے نعرے بلند کئے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ امریکی وزارتِ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں کو متعدد مرتبہ عمران خان و پی ٹی آئی کے امریکی مداخلت کے الزامات کو واضح طور پر مسترد کرنے کے بیانات جاری کرنا پڑے۔ پھر حسب روایت امریکی صدارتی انتخابات کے دوران امریکا کے متعلق 180 ڈگری زاویہ کا یوٹرن مارا گیا اور خان صاحب کی رہائی کے متعلق تمام تر امیدوں کا سرچشمہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انکی پارٹی کے رہنماؤں کو قراردے دیا گیا۔
رچرڈ گرینیل ایسے قماش کے امریکی سیاستدانوں کے خان صاحب کے حق میں دیے گئے ٹویٹس اور بیانات سرآنکھوں پر لگائے گئے۔ بے شرمی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے یوٹیوبرز جوخان صاحب کے نام پر لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں اور ہر روز قوم یوتھ کو نت نئی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایسے ایسے سنہری خواب دکھائے اور دعوے کئے کہ ٹرمپ اپنی پہلی تقریر میں عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکام کو حکم نامہ جاری کریں گے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ مسند اقتدار براجمان ہونے سے لیکر آج کی تاریخ تک ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے ابھی تک خان صاحب کا ذکر خیر سننے کو نہیں ملا۔
خان صاحب کے نام کی کمائی کھانے والے ایسے یوٹیوبرز جو کل تک امریکی مداخلت کے برخلاف امریکی غلامی سے آزادی کے ہراول دستہ کے کمانڈر بنے ہوئے تھے، آج کل امریکی سیاستدانوں و ممبران پارلیمنٹ کے ہر اس بیان پر بھنگڑے ڈالتے دِکھائی دیتے ہیں جس میں پاکستان کی سیاسی و غیرسیاسی قیادت کے خلاف بیان جاری کیا ہو یا پھر خان صاحب کے حق میں بیان بازی کی گئی ہو۔ امریکی ایوان نمائندگان میں 24 مارچ کو رپبلکن رکن جو ولسن اور ڈیموکریٹ رکن کانگریس جیمز ورنی پنیٹا نے پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے عنوان سے بِل پیش کیا۔ اس بل کے مطالعے سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ایک یہ کہ امریکی حکومت عمران خان کی رہائی کو یقینی بنائے، دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی قیادت اور پاکستانی مسلح افواج کی قیادت کی امریکا آمد پر پابندیاں عائد کی جائیں۔ یاد رہے جو ولسن ایوان کی خارجہ اُمور اور آرمڈ سروسز کی کمیٹیوں کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ رپبلکن پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ جوولسن کو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے رکن ڈیموکریٹ جیمز ورنی پنیٹا ہیں جو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلی جنس افسر رہ چکے ہیں۔ جو ولسن کچھ عرصے سے عمران خان کی رہائی سے متعلق متحرک ہیں۔
امریکی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف بل پیش ہونے پر ایک طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت لڈیاں ڈال رہا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کارکنان اور خان صاحب کے نام کی کمائی کھانے والے یوٹیوبرز کی خوشی دیدنی ہے کیونکہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے پاکستانی اندرونی معاملات امریکی پارلیمنٹ کا موضوع بحث بن جائیں گے۔ یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ اس طرح کے بل ردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں یا پھر مملکت پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے کیری لوگر بل کی طرز پر پاکستان کی سیاسی و عسکری طاقت کو مشکلات میں مبتلا کیا جائے گا۔
ایک بات تو طے شدہ ہے کہ پاکستانی اداروں میں خان صاحب اور پی ٹی آئی کے متعلق جو بچا کُھچا نرم گوشہ موجود تھا وہ بہت حد تک ختم ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی کی جانب سے جعفر ایکسپریس سانحہ پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ عمران خان و پی ٹی آئی کی دیگر قیادت معاملات کو جس نہج پر لے جا چکی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی ادارے یہ یقین کی حد تک محسوس کرچکے ہیں کہ عمران خان کو مسند اقتدار پر براجمان کروانا اُن کی سنگین غلطی تھی، جس کا خمیازہ خود پاکستانی اداروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور جس طرز پر ففتھ جنریشن وار کے نام پر سوشل میڈیائی جنگجو تیار کروائے گئے وہ انہی کے گلے پڑ چکے ہیں جو اندرون ملک اور دیارغیر میں بیٹھ پر پاکستانی اداروں کے خلاف محاذ جنگ کھولے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بدبخت ففتھیئے پاکستان ٹوٹنے کی پیشنگوئیاں کرتے دِکھائی دے رہے ہیں۔
امریکا سے آئے سائفر(خفیہ دستاویز)پر پیالی میں طوفان بدتمیزی بھرپاکرنے والی پی ٹی آئی قیادت، کارکنان اور پی ٹی آئی یوٹیوبرز سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ امریکی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستانی حکام پر پابندیاں لگانے ایسے سرعام بل اور خدانخواستہ بل کی منظوری، کیا ایسے اقدامات کو امریکی مداخلت قرار نہیں دیں گے؟