…میں تمہیں اچھی قوم دوں گا!

فرانس کے جرنیل حکمران نپولین بونا بوٹا پارٹ نے اپنے زمانے میں ایک اہم جملہ ادا کیا تھا جبکہ وہ اپنی قوم سے مخاطب تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ” تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔” اس کا یہ جملہ تاریخ میں امر بن گیا ہے۔ نپولین اپنی قوم کو یہ تسلی دینا چاہتا تھا کہ جب تک قوم میں اچھی مائیں موجود ہیں، ان سے ہمیشہ اچھی قوم ہی وجود میں آتی رہے گی۔

مختصر سے اس جملے کی سچائی سے کس کو انکار ہوسکتا ہے؟ یہ قوم کی مائیں ہی ہوتی ہیں جو اپنی آنے والی قوم کی پرورش کرتی ہیں، انہی کی گود میں وہ افراد پلتے ہیں جنہیں قوم و ملک کو سنوارنا اور مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ اولاد کی ابتدائی زندگی کا بڑا حصہ اپنی ماں کی گود میں گزرتا ہے، وہی ان کے ذہنوں میں بہادری، اعتماد، کردار کی عظمت، شفقت و محبت، حب الوطنی اور اولوالعز کی خصوصیات اتارتی ہیں۔ وہی انہیں بتاتی ہیں کہ اچھائیاں کیا ہوتی ہیں اور برائیاں کیا ہوتی ہیں؟ کس طرح وطن کو سر بلند کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اسے رسوائی سے دو چار کیا جاسکتا ہے؟ اور کردار کی بلندی سے دنیا کو کس طرح فتح کیا جاسکتا ہے؟ ماں بچوں کے لئے ایک مثالی روپ (ماڈل) کا درجہ رکھتی ہے، دس بارہ سال تک بچہ اسی کے زیر اثر ہوتا ہے اوراس کی غیر محسوس کوششیں ہوتی ہے کہ اپنی ماں کے کردار کو اپنے اندر جذب کرلے!

دنیا کی کوئی بھی قوم بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار سے انکار نہیں کرسکتی۔ بچوں کی تربیت میں باپ کا کردار دوسرے نمبر کا ہوتا ہے، کیونکہ عام طور پر باپ کی زندگی بیرونی مصروفیات میں گزرتی ہے۔ اس کا وقت گھر کے اندر کم گزرتا ہے، اس لیے قوم سازی میں باپ کا کردار بھی ثانوی ہوتا ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد ہی سے ماں کے اثرات بچے کے اندر اترنے لگتے ہیں۔ وہ جب ماں کے سینے سے چمٹ کر دودھ پی رہا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنی ماں کی تمام خصوصیات دودھ کے ساتھ اپنے جسم میں اتار رہا ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی ابتدائی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مائوں کو اپنے بچوں کو سینے کا دودھ پلانے کی یونہی تاکید نہیں کی جاتی ہے۔ اس کے جہاں طبی فوائد پائے جاتے ہیں، وہیں اس کے اخلاقی، مذہبی اور انسانی اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد بچے کا ماں سے چمٹ کر سونا اور ماں کا اسے اپنی میٹھی زبان سے لوریاں سنانا بچے کے کردار کو تبدیل کرنے کا اہم سبب بنتا ہے۔ ماں ہی اسے اشیاء کے نام اور دنیا کے طور طریقوں سے واقف کراتی ہے اور وہی اسے رشتے داروں میں گھماتی پھراتی ہے۔

ماں اگر جاہل ہو، پھوہڑ اور لاپروا ہو اور فحاشی و بے حیائی کو پسند کرنے والی ہو تو اس کی اولاد میں جہالت، پھوہڑ پن اور فحاشی کے اثرات نمایاں ہونے لگیں گے۔ اسے علم ،نظم و ضبط اور پاکیزگی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوگی۔ اگر ماں کو مذہب سے محض واجبی سا لگائو ہوگا تو شاید مستقبل میں بچے کے اندر وہ معمولی سا لگائو بھی باقی نہیں رہے گا۔ ماں اگر جھگڑا لو اور طعنے کوسنے دینے والی ہوگی تو بچے کے اندر اس کے اثرات لازمی طور پر پیدا ہوں گے۔ اسی طرح ماں اگر اپنے شوہر سے جھگڑے اور بحث کرنے والی ہوگی تو بڑا ہوکر بچہ باپ (اور اس کے نتیجے میں) باقی بزرگوں کو معمولی حیثیت بھی دینے کو تیار نہیں ہوگا۔اس کے برعکس اگر ماں تعلیم یافتہ اور حیا دارہوگی تو بچے کے اندر بھی یہ صفات اجاگرہونی شروع ہوجائیں گی اور اگر ماں اپنے شوہر کو احترام اور فیصلہ کن اہمیت دینے والی ہوگی تو بچہ بھی اپنے والد کے بارے میں انہی جذبات کی پرورش کرے گا۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ابتدا ہی سے ایک اچھے خاندان کی بنیاد رکھ دی جائے گی جو آگے چل کر ایک اچھی قوم میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

جب مسلم معاشرے میں مائیں اپنے اصل کردار کو ادا کیا کرتی تھیں اور ان میں فرمانبرداری، دین داری اور حیا کی صفات بہت زیادہ موجود ہوتی تھیں، تو ان سے جنم لینے والی وہ قوم وجود میں آتی تھی جس نے سکندر و دارا کی سلطنتوں کو الٹ کر تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا۔ یہی وہ عظیم مائیں تھیں جن کے نتیجے میں امام شامل، امام ابو حنیفہ مولانا محمد علی جوہر، قائد اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور ٹیپو سلطان جیسی انقلابی شخصیتیں وجود میں آئی تھیں، جن کے کارنامے آج نسل در نسل تک بڑھے جاتے ہیں۔ اچھی مائوں کی گود میں پرورش پانے والی بے شمار شخصیتیں ہیں جنہوں نے دین کی تشریح و توضیح میں اتنی لاجواب کتابیں لکھی ہیں کہ دین کا دھارا آج بھی مغرب میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔

نپولین بونا پارٹ، جس نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا، وہ مغرب کا فرد تھا، لیکن آج اسی مغرب میں ماں کا کردار غائب ہے۔ آج وہاں کی عورت سب کچھ ہے مگر ماں نہیں ہے۔ وہ ایک کھلونا ہے، ایک مال تجارت ہے، اور ایک سامان دلجوئی ہے۔ اپنے فطری حسن اور کشش نے عورت کو آج ایک اچھی قوم کو فروغ دینے سے روک دیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر مغرب کی ماں نے خود بھی اپنے لئے انہیں تمام راستوں پر چلنا پسند کیا جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا۔ وہ اندھی راہوں میں بگٹٹ بھاگتی ہوئی خود بھی کہیں گم ہوگئی ہے۔اس نے پیسے کو اپنا دیوتا بنالیا۔ وہ گھر سے نکل کر کارخانوں، دکانوں اور طیاروں میں آ بیٹھی۔ پھر اسے اپنا شوہر اور اپنے بچے بوجھ لگنے لگے اور اس کے دماغ میں ” بچوں کے بغیر” کی زندگی کا تصور اُبھرا۔ وہ قانونی بچوں سے جان چھڑانے کے چکر میں بہت غیر قانونی بچوں کی ماں بن گئی جن سے فطری طور پر اسے کوئی محبت نہ تھی۔ نتیجتاً بچوں سے مائوں کا سہارا چھوٹ گیا۔ اب نہ اس کے پاس لوری سنانے والی وہ ماں رہی اور نہ تادیب کرنے والا وہ باپ، اب وہ برے بچے بن گئے، جن کا کام ڈاکے اورعریانی کا فروغ تھا، آج وہاں کی مائیں اور بچے دونوں بدترین دماغی امراض کا شکار ہیں۔ عورت بھی کسی شفقت اور سرپرست سے محروم ہے اور بچہ بھی انہی محرومیوں میں گھرا ہوا ہے۔ جب مغرب میں اچھی مائوں کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے تو وہاں اچھی قوم کا تصور بھی گہنا رہا ہے۔ آج تمام مغربی لوگ دنیا کی دوسری قوموں کے لئے وحشی درندے ہی ثابت ہورہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اولاد کی پرورش پر بہت زیادہ زور دیا ہے اوراس راہ میں مصیبت جھیلنے والی عورت اور مصیبت جھیلنے والے مرد کے لئے بیش بہا اجر و نعمت کا اعلان کیا ہے۔ حدیث میں مردوں اور عورتوں دونوں پر حصول تعلیم کو فرض کردیا گیا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ تعلیم پاکر خواتین اچھی مائوں کا درجہ سنبھال سکیں۔ اس طرح اس کی تمام احادیث کے پیچھے ایک اچھی نسل اور ایک اچھی قوم کا فلسفہ بھی موجود ہے۔

آج ہم پاکستان میں اپنی نئی نسل کی جو اٹھان دیکھ رہے ہیں وہ سب کچھ اسی باعث ہے کہ اب پاکستان میں بھی اچھی مائیں ختم ہورہی ہیں۔ پاکستان کی مسلم عورت نے بھی خود کو تمام حدود و قیود سے آزاد کرلیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مغرب کی طرح وہ بھی تجارتی مال بن جائے۔ آج کی پاکستانی ماں بھی بچے اور شوہر کے بدلے ” پیسے” کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگی ہے، وہ پیسے ہی کی بنیاد پر اپنے بچوں، شوہر اور ساس کو پرکھتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں خاندان ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں اور طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ بچے بھی بکھر رہے ہیں۔ آج کی نئی نسل کام چور، زبان دراز، جھگڑے اور فساد کی پسندیدہ، قتل وغارت گری کی دلدادہ اور مال حرام کی رسیا ہے۔ چنانچہ ان صفات کے ہوتے ہوئے ایک اچھی قوم کیسے وجود میں آسکتی ہے؟پرانے زمانے کے بچے جب اپنی مائوں اور دادیوں کو دیکھا کرتے تھے کہ بستر مرگ پر بھی وہ روزے رکھنے کا بھی اہتمام کرتی تھیں تو ان کے دلوں میں بھی روزے کی پابندی کا سختی سے جذبہ اُترتا تھا اور جب وہ دیکھتے تھے کہ ان کی مائوں کے چہروں کو فرشتوں کی نگاہیں بھی نہ پاسکتی تھیں تو ان کے دلوں میں بھی پردے کی صفت سے چمٹے رہنے کا شوق ابھرتا تھا، مگر آہ کہ آج یہ سب باتیں پرانی لگتی ہیں!

نپولین بونا پارٹ نے عرصہ دراز قبل ہی مرض کی صحیح تشخیص کرلی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں بھی عورتیں چادر اور چار دیواری میں رہنا پسند کرتی تھیں! نسلوں کی پرورش میں بچی اور بچے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ قوم بچی سے بھی مل کر بنتی ہے اور بچے سے بھی۔ نپولین کے مذکورہ قول کی اس جملے سے بھی تائید ہوتی ہے کہ ہر ” کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔” دوسرے الفاظ میں ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر ناکام مرد کے پیچھے بھی کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بے شک اچھی مائیں ہی اچھی قوم کو وجود میں لاسکتی ہیں۔ وہ معاشرہ جو اچھی مائوں سے محروم ہوگیا اُس نے اپنی تباہی کا سامان کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نپولین بونا پارٹ کے اس قیمتی قول کو ہمیں اپنے ایوان صدر، پرائم منسٹر ہائوس اور ایوان ہائے پارلیمنٹ میں بھی خوبصورت طغرے کی شکل میں لٹکا کے ٹانگ دینا چاہیے تاکہ یہ اہم سبق ہماری اہم ترین شخصیات کی نظروں میں بھی ہر وقت مستحضر رہے۔