خوارجی فکر کی سرکوبی ضروری ہے

آج وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کا ہر فرد ہر قسم کی دہشت گردی کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے نہ صرف دہشت گردی سے نمٹنے کا ذاتی طور پر پختہ عزم کرے بلکہ ان انتہا پسند نظریات کے خلاف بھی جدوجہد کرے جو مختلف دہشت گرد گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے وحشیانہ تشدد کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہمارے ملک کے استحکام، شہریوں کے تحفظ، ہمارے سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام کے لیے ایک روزمرہ کا چیلنج بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگین عالمی مسئلہ ہے جو سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے بالاتر ہے، جس سے نمٹنے کے لیے عوام، علمائ، تعلیمی اداروں اور فوج کی مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ یہ جنگ مگر محض عسکری قوت کے بل بوتے پر نہیں جیتی جا سکتی، کیونکہ یہ ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ ہے، جس کے ہر پہلو سے نمٹنے کے لیے مخصوص طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم واقعی اس جنگ میں سنجیدہ ہیں تو پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بھی اس کے تمام مراحل کو مدنظر رکھ کر ہونی چاہیں، جن میں انتہا پسند نظریات کو جڑوں سے ختم کرنا سر فہرست ہے، جس کے لیے علماء کرام کو بطور خاص ایک مؤثر کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ریاست کے خلاف برسر پیکار گروہوں کے حوالے سے بعض ذہنوں میں موجود گڈ اور بیڈ کا فرق ختم نہیں ہوگا تب تک ملک میں امن و امان کے قیام کو فقط ایک خواب کی طرح ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جب تک انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ہر شکل کو اتفاق رائے سے رد نہیں کیا جائے گا تب تک ہماری کوششیں بار آور نہیں ہو سکتیں۔ اگر دہشت گردی کے اصل عوامل پر غور کرکے انہیں معلوم کیا جائیں اور پھر ان کا قلع قمع کیا جائے تو پاکستان کی عسکری قیادت، حکومت، عوام اور علماء کی مشترکہ کاوشیں اور کامیابیاں پاکستان کے روشن اور پرامن مستقبل کی نوید بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے علماء کے زیر نگرانی باقاعدہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسا فورم ہونا چاہیے جو انتہا پسندی کے خلاف ذہنوں کی تربیت، مکالمہ، تحقیق اور تعاون پر کام کرے۔ آج کل سوشل میڈیا کسی بھی قوت کے لیے بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے، اگر اسے یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑا گیا جیسا کہ آج تک وطن عزیز میں یہی صورتحال ہے تو اس کے بڑے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہو جو دہشت گرد تنظیموں کے جھوٹے اور گمراہ کن بیانیے کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے حوالے سے نوجوان نسل کی رہنمائی کرے۔

اگر دہشت گردی کے خلاف موجودہ کارروائی کو ہماری فوج خوارج کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتی ہے اور علماء اس سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر خوارج کا تعارف، ان کے نظریات اور ان کے خلاف جنگ کی شرعی حیثیت کو عوام کے سامنے واضح کرنا بھی علماء کرام کا فرض بنتا ہے تاکہ ان کے ذہنوں سے یہ اشکال رفع ہو جائے کہ اگر وہ مسلمان ہیں تو پھر ان کے خلاف کیوں لڑا جا رہا ہے؟ جی ہاں! انہیں بتایا جائے کہ خوارج فرقہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ قتال ان کے ظلم اور بغاوت کو روکنے کے لیے کیا تھا، نہ کہ اس بنیاد پر کہ وہ کافر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے نہ ان کے اہل و عیال کو غلام بنایا اور نہ ہی ان کے ساز وسامان کو مالِ غنیمت قرار دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خوارج عبادت اور اطاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ دینِ اسلام پر عمل کرنے، اس کے احکام کو نافذ کرنے، اور ہر اس چیز سے بچنے کے لیے انتہائی محتاط رہتے تھے جسے اسلام نے منع کیا ہے۔ وہ کسی بھی گناہ یا خلافِ شریعت کام سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ اس پر سب سے بڑی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: “وہ قرآن پڑھیں گے، مگر تمہاری قراء ت ان کی قراء ت کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہوگی، اور تمہارا روزہ ان کے روزے کے مقابلے میں کچھ بھی نہ ہوگا۔ “ابن عباس رضی اللہ عنہما جب خوارج کے پاس مناظرے کے لیے گئے، تو ان کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”میں ایک ایسی قوم کے پاس سے آیا ہوں جن سے بڑھ کر میں نے کسی کو عبادت میں محنت کرنے والا نہیں دیکھا۔ ان کی پیشانیاں سجدوں کی کثرت سے زخمی ہو چکی تھیں، ان کے ہاتھ اونٹ کے گھٹوں کی طرح سخت ہو چکے تھے۔ وہ دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، اپنی آستینیں چڑھائے رکھتے، اور شب بیداری کی وجہ سے ان کے چہرے زرد اور کمزور ہو چکے تھے۔” اسی طرح حضرت جندب الازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”جب ہم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف گئے اور ان کے لشکر کے قریب پہنچے، تو ہم نے ان کی تلاوتِ قرآن کی آواز سنی، جو شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی۔”

اس ظاہری تقوی اور دینداری کے باوجود مگر وہ راندہ درگاہ ٹہرے کیونکہ وہ انتہا پسند تھے۔ جس کے نتیجے میں وہ دین کی حدود اور اس کے اعلیٰ مقاصد سے باہر نکل گئے تھے۔ انہوں نے ہر اس مسلمان کو کافر یا منافق قرار دیا جو ان کے نظریے کا قائل نہ ہو، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مخالفین کا خون بہانا جائز سمجھا۔ کچھ گروہوں، جیسے الازارقة، نے تو اپنے مخالفین کی عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا حلال قرار دے دیا تھا۔
انہوں نے اپنی جہالت، شدت پسندی اور سخت رویے کی وجہ سے اسلام کی خوبصورتی کو انتہائی بدنما کر دیا تھا۔ ان کی بے جا تاویلات اور خود ساختہ اجتہاد نے انہیں اسلام کی حقیقی روح، اس کے حسن اور اعتدال پسندی سے بالکل دور کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ جس شدت پسندی کے راستے پر چلے، وہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا اور نہ ہی قرآن اس کی دعوت دیتا ہے۔ جنت کے شوقین وہ بھی تھے، اس تک مگر پہنچنے کے لیے جس راستے کا انہوں نے انتخاب کیا وہ رانگ نمبر تھا جو انہیں دین مستقیم کی حدود سے بہت دور لے گیا۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں غلو (انتہا پسندی) اور شدت پسندی سے خبردار کرتے ہوئے تین بار فرمایا: ہلکَ المتَنَطِّعونَ (ہلاک ہو گئے وہ لوگ جو دین میں غلو اور سختی کرتے ہیں) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خوارج کو شرار خلق اللہ (اللہ کی بدترین مخلوق) قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کافروں کے بارے میں نازل کی گئیں آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔”

عوام کو بتایا جائے کہ خوارج مسلمانوں کو کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی بنا پر کافر قرار دیتے تھے۔ جو حکمران ان کے نظریے کے مطابق انصاف نہیں کرتا، اس کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے لڑنا کار ثواب اور ان کا بنیادی عقیدہ ہے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ وہ نماز جمعہ اور دیگر نمازیں اسی امام کے پیچھے ادا کرنے کے قائل تھے جو ان کا ہم خیال ہو۔ وہ دین میں کسی قسم کی آسانی یا اجتہاد کو قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ تحکیم (ثالثی) کو مسترد کرتے تھے۔ وہ اپنے نظریات سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کو قتل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ صحابہ اور تابعین کو بھی انہوں نے نشانہ بنایا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو ذبح کرنا اور ان کی بیوی کا پیٹ چاک کرکے قتل کرنا ان کی سفاکیت کی بدترین مثال ہے۔ وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر غلط تشریحات کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل کرتے تھے۔ وہ اپنی جماعت کو ”فرقہ ناجیہ” (نجات پانے والا گروہ) سمجھ کر باقی سب کو گمراہ تصور کرتے تھے۔ یہ بعض وہ خصوصیات ہیں جو خوارج کو اسلامی تاریخ میں ایک منفرد فرقہ بناتی ہیں اور یہی وہ وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر صحابہ کرام اور بعد کے مسلم حکمرانوں نے ان کے خلاف کاروائیاں کیں۔ سو ایسے نظریات کے حامل لوگوں کے خلاف جنگ جتنی کل ضروری تھی اتنی آج بھی ضروری ہے، تاکہ ان کے ظلم اور فساد سے ملک وقوم کو بچایا جا سکے۔