آئیے! بھکاری پن کو شکست دیں

آج کل رمضان کے مقدس مہینے کا آخری ہفتہ چل رہا ہے۔ پورا مہینہ مہنگائی کاطوفان برپا رہا ہے۔ ہر کوئی عید کمانے کے چکروں میں دوسروں کی کھال اتار رہا ہے۔ ”عید کمانے” کے کام میں بھکاری سب سے آگے ہیں۔ بھکاری پن باقاعدہ ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بھکاریوں نے اس وقت ملکِ عزیز کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کو عملاً یرغمال بنا رکھا ہے۔ کوشش کے باوجود شہری ان کے پھندے سے نکل نہیں پاتے۔ اس مافیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بیرونِ ملک سعودی عرب اور دوبئی میں اس نے اپنی مستقل شاخیں قائم کر لی ہیں۔

یہ بھکاری ثواب کا لالچ دے کر لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ ویسے بھی بھیک مانگنا ہماری قوم شناخت بن چکی ہے۔ ہمارے ملک کے تمام عوام و خواص ہی کسی نہ کسی شکل میں بھکاری بن چکے ہیں۔ بھیک صرف یہی نہیں ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کچھ حاصل کر لیا جائے بلکہ اپنے حصے یا حق سے زیادہ کا حصول بھی بھیک ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ رشوت خور سرکاری ملازم یا افسر بھی حقیقت میں بھکاری ہی ہے جو سائل سے جائز یا ناجائز کام کے عوض نذرانہ وصول کرتا ہے۔

بغیر محنت یا کسی کام کے حاصل کی گئی رقم یا جنس بھیک ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جو ہمارے مقتدر حلقے انتہائی سستے داموں توشہ خانہ سے مہنگی چیزیں خریدتے ہیں اگر اس عہدے پر نہ ہوتے تو کیا ان چیزوں کو خریدنے کے مستحق ہو سکتے تھے؟ کیا عام آدمی توشہ خانہ سے اس طرح کم قیمت دے کر مہنگی چیزیں خرید سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ شاہی بھیک ہے جو صرف شاہوں اور حواریوں کا استحقاق ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت بھی بھیک مانگنے کو ”منفعت بخش کاروبار” سمجھتی ہے۔ ملک میں سیلاب، زلزلہ یا کسی دوسری قدرتی آفت کی صورت میں ہماری حکومت ہمیشہ خالی ہاتھ ہوا کرتی ہے۔ پوری دنیا سے آفت زدگان کی بحالی کے لیے ڈونیشن کے نام پر بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ جو آفت زدگان تک تو نہیں پہنچ پاتی، البتہ اس بھیک سے جو کچھ امداد کے لیے جاری کیا جاتا ہے وہ حکومتی زعماء اور سرکاری اہلکاروں کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے۔ 2022ء کے سیلاب زدگان ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔ حکومت نے اربوں روپے کی امداد اکٹھی کی۔ ایک سیاسی پارٹی نے اربوں روپے ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جمع کیے اور وہ رقم اپنے سیاسی جلسوں پر خرچ کر ڈالی۔ سیلاب زدگان امداد کے منتظر ہی رہے۔

دراصل آفت زدہ لوگ حکومتوں کے وہ اپاہج، مفلوج اور معذور بچے ہوتے ہیں جنہیں انتہائی گندے، میلے کچیلے کپڑوں میں ریڑھیوں پر ڈال کر یا چوکوں چوراہوں میں بٹھا کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کی بحالی کا مطلب ”کاروباری نقصان” سے دوچار ہونا ہے۔ اب آتے ہیں ملکِ عزیز کے پیشہ ور بھکاریوں کی طرف۔ اعداد و شمار کے مطابق ہماری 25کروڑ آبادی میں سے تقریباً چار کروڑ بھکاری ہیں۔ ان میں 12فیصد مرد، 55فیصد خواتین، 27فیصد بچے اور باقی 6فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں۔ ان بھکاریوں کا 50فیصد کراچی، 16فیصد لاہور، 7فیصد اسلام آباد اور باقی دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ اب اس کی مزید تفصیل بھی پڑھتے جائیے۔ کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1500اور اسلام آباد میں 1000روپے ہے۔ پورے ملک میں فی بھکاری روزانہ کی اوسط 900روپے ہے۔ روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 34ارب روپے لوگوں کی جیبوں سے نکال لیتے ہیں۔ سالانہ یہ رقم 124کھرب روپے بنتی ہے۔ ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 44ارب ڈالر بنتی ہے۔ یوں بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھاکر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 44ارب ڈالر یہ بھکاری نکال کر لے جاتے ہیں۔

منافع بخش کام سے مراد ایسا پیداواری کام ہے جس سے ملک کو فائدہ ہو۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ21فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ملکی ترقی کیلئے 4کروڑ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت ملکی ترقی میں حصہ لینے کی بجائے کام کرنے والوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے جبکہ ان افراد سے معمولی کام لینے کی صورت میں بھی آمدن 40ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کرسکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کیلئے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے۔ گلی گلی موجود لنگر خانے، ایدھی، سیلانی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے مفت کھانے کی فراہمی اور حکومت کی طرف سے بینظیر انکم سپورٹ کی امدادصرف ہڈ حرام پیدا کررہی ہے اور ملک کی تباہی میں ان سب کا بھی بھرپور حصہ ہے۔ حکومت پنجاب بیوہ کارڈ، معذور کارڈ اور جانے کون کون سے کارڈز کا اجراء کر کے ہڈحراموں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔ امداد کے نام پر دیے جانے والے ان کھربوں روپے سے اگر بڑی اور چھوٹی انڈسٹریز قائم کر کے ان مستحقین کے لیے روزگار کا بندوبست کر دیا جائے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی بہتری کی طرف گامزن کرنے والا عمل ہوگا۔

آپ اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دے کر مطمئن ہیں تو بے شک اگلے سو سال مزید ذلت میں گزارتے رہیں اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کو پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خداحافظ کہہ دیجیے۔ مفت کھلانے کے تمام عوامل کا بائیکاٹ کردیجیے۔ بے شک اس کے خلاف بے شمار فتاویٰ ملیں گے لیکن پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شاء اللہ نادم نہیں ہوں گے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے۔ بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خداحافظ کہا تھا، اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس 52ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔ اچھی بات اور مستند کام کی تقلید میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ویسے بھی آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کسی بھکاری کو آپ پانچ سو روپے بھی دیں گے تو وہ اگلے روز پھر آپ کے پاس بھیک مانگنے آ جائے گا۔ اگر کسی مزدور کو شام کے وقت اس کی طے شدہ اجرت سے پچاس روپے بھی زیادہ دیں گے تو وہ نہ صرف آپ کا شکر گزار ہوگا بلکہ اگلے روز زیادہ دلجمعی اور محنت سے کام کرتا نظر آئے گا۔ بھکاری پن کا خاتمہ ہوگا تو مقتدر بھکاری بھی اپنا قبلہ درست کر لیں گے۔