اسلامو فوبیا کیسے ختم ہوگا؟ (شجاع الدین شیخ)

گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غصے اور نفرت کی ایسی لہر اٹھی ہے کہ خود کو ترقی پسند یا ترقی یافتہ سمجھنے والے غیر مسلم طبقات نے مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کر دیا ہے جبکہ ایک صدی قبل دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں حالات کچھ ایسے تھے کہ مسلم اور غیر مسلم اگر کہیں پڑوسی بھی ہیں تو وہ ایک دوسرے کی مذہبی اقدار کا لحاظ کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کے اکرام کے لیے دعوتیں بھی کیا کرتے تھے جبکہ آج صورتِحال ایسی نہیں ہے۔
گزشتہ صدی میں 90 کی دہائی میں دنیا بھر میں دین اسلام کے خلاف نفرت کی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف چند سال پہلے یورپ میں آباد ہونے والے مسلمان باقاعدہ زیرِ عتاب آئے بلکہ یورپی ممالک میں صدیوں سے رہتے، بستے مسلمان دہشت گرد سمجھے جانے لگے۔ عوامی مقامات پر ان کے ساتھ غیر مسلموں کا رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا۔ اِس دوران میں کئی تشدد آمیز واقعات بھی رونما ہوئے۔ پھر جب نائن الیون ہوا تو امریکا اور یورپ میں مسلمان اور دہشت گرد ہم معنی قرار پاگئے۔ ایسے میں کئی غیر مسلم تنظیموں اور کئی انتہا پسند غیر مسلموں نے کھل کر اسلام کےخلاف نفرت کا اظہار کرنے کےلئے قلم اور برش کا استعمال شروع کردیا۔ دنیا بھر کے مسلمان ان کی اِن حرکتوں پر معترض ہوئے تو اپنے اِس عمل کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیا گیا۔ دنیا بھر کے مسلمان اِس صورتحال میں نفسیاتی طور پر بری طرح دباو میں تھے جس کا اظہار وہ اپنے وطن میں احتجاجی مظاہروں میں کرتے رہے۔ اِن احتجاجی مظاہروں کی خبریں جب مغرب میں پہنچتیں تو وہ خوش ہوتے کہ دیکھو ہم مسلمانوں کو پریشان کرنے میں کس طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے اسلام کے خلاف شائع ہونے والے خاکوں کی نہ صرف حمایت کر دی بلکہ اس کو جاری رکھنے اور اس کی سرپرستی کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔
مغرب کے جن ممالک میں اس طرح کے سانحات رونما ہوئے، وہاں تو مسلمان پہلے ہی اقلیت میں تھے اور مسلم ممالک میں کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اس ملک کے حکمرانوں سے اِس موضوع پر بات کر سکے۔ اسی دوران نیوزی لینڈ کے شہر میں دو جامع مساجد میں یکے بعد دیگرے جمعہ کے اجتماع میں ایک شخص نے فائرنگ کرکے پچاس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا جبکہ سو سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ اِسلام دشمنی کا اِس سے زیادہ برا مظاہرہ دورِ جدید میں اِس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اِس پر نیوزی لینڈ کی حکومت کو تو کچھ پریشانی ہوئی مگر مجموعی طور پر مغرب کی سوچ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ مسلمان حکمران بھی زبانی بیانات دینے سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ایسے میں پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ مغرب میں پھیلنے والی اسلام کےخلاف نفرت کے سدباب کےلئے کچھ کریں گے۔ پھر جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں انہیں خطاب کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے وہاں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور ہمارے رول ماڈل ہیں اِس لئے جنرل اسمبلی اسلاموفوبیا سے نبٹنے کے لئے رائے شماری کرائے اور اس کے خلاف ایک عالمی دن مقرر کرے۔
15 مارچ  2022ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے قرار داد پیش کی تو یورپی ممالک اور بھارتی مندوبین نے مخالفت میں تقاریر کیں مگر کسی بھی ملک نے اِس قرار داد کیخلاف ووٹ نہیں دیا۔ آخرکار اقوامِ متحدہ نے خوب سوچ سمجھ کر ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نبٹنے کے حوالے سے عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ اِس سال پاکستانی وزیراعظم نے اپنے بیان میں اسلامو فوبیا سے نبٹنے کےلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی جلد تقرری کے منتظر ہونے کی خبر دی ہے۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے، جس کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو تم پہ لازم ہے کہ اسے ہاتھ سے مٹا دو اگر اِس کی طاقت نہ ہو تو اسے اپنی زبان سے اس کے خلاف آواز اٹھاو اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو پھر اسے دل میں ضرور برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلم امہ کے حالات اِس قدر دگر گوں ہو چلے ہیں کہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے پیش رفت کے لئے اقوام متحدہ کے ایلچی کا انتظار کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو اس وقت خود بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ مسئلہ ایلچی کے آنے سے نہیں بلکہ دلوں میں ایمان کی مضبوطی سے حل ہوگا۔ اہل مغرب اسلام اور مسلمان کو ہم معنی سمجھتے ہیں وہ آج کے مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہوئے اسلام سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں خود اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ کیا واقعی ہمارا دعوی مسلمانی درست ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں اِس وقت دس فیصد مسلمان بھی اسلام کے صحیح نمائندہ نہیں ہیں۔ وہ محض مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بن کر دکھانا چاہیے۔