جہاں گیر سے عالم گیر تک

دریائے راوی لاہور کے مغربی کنارے پر اپنے پسندیدہ اور ملکیتی باغ دلکشا میں عظیم مغل شہنشاہ نور الدین جہانگیر بڑے اور خوبصورت مقبرے میں محو خواب ہے۔ میں مقبرے کی چار دیواری کے صدر دروازے سے داخل ہوا۔ یہ لگ بھگ 100کنال کا ایک بڑا باغ ہے جس کا نام پادشاہ نامہ میں جہانگیر کے جانشین شاہجہاں کے درباری مورخ عبدالحمید لاہوری نے جلو خانہ روضہ بتایا ہے۔ اسے اکبری سرائے بھی کہا جاتا ہے۔

چاروں طرف 180کی تعداد میں حجرے مسافروں اور مقبرے کے عملے کی قیام گاہیں ہیں۔ مغربی سمت مسجد ہے اور وضو کا ایک چھوٹا سا حوض۔ آم کے گھنے پیڑوں تلے بچھے سبزہ زاروں کو وہ پختہ روشیں قطع کرتی ہیں جن پر چل کر آپ مقبرے کی طرف جا رہے ہیں۔ باغ کے وسط سے آپ دائیں طرف مڑیں تو سامنے ایک اور بلند دروازہ ہے جس سے آپ ایک اور بڑے باغ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس دروازے پر ایک لمحہ ٹھٹک کر میں نے سامنے مقبرے کی عمارت کو دیکھا جو اندرونی خوبصورت باغ میں سرو کے پودوں اور فواروں کی قطار کے پار دھوپ میں جھمکتی تھی۔ یہ مقبرہ ایک بڑے اور بلند چبوترے پر بنا ہوا تھا جس کے چاروں کونوں پر سرخ سفید دھاری دار مینار محافظوں کی طرح عمارت کی حفاظت کرتے تھے۔ اس بلند چبوترے کو تخت گاہ کہا جاتا تھا۔ دہلی میں جہانگیر کے دادا مغل شہنشاہ ہمایوں کا مقبرہ بھی اسی طرح تخت گاہ پر بنا ہوا ہے، البتہ ہمایوں کا مقبرہ جو تاج محل کی ابتدائی شکل معلوم ہوتا ہے ایک بڑے اور مرکزی گنبد سے سجا ہوا ہے جبکہ شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے مقبروں پر گنبد نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر نے خود اپنے مقبرے پر گنبد بنانے سے منع کیا تھا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ مقبرے کی اصل عمارت کے اوپر سنگ مرمر کی چار دیواری تھی۔ سر پر رکھے تاج کی طرح، رنجیت سنگھ کے دور میں یہ اتار کر حضوری باغ کی بارہ دری میں استعمال کی گئی۔

میں مقبرے کی عمارت میں داخل ہوا اور قبر سے پہلے سنگ مرمر کی راہداری کی ٹھنڈک نے میرے جسم کو لپیٹ لیا۔ راہداری ایک سنگ مرمر کی جالیوں والی دیوار پر ختم ہوتی تھی اور اس دیوار کے وسط میں ایک چھوٹا دروازہ ہے جس سے سر جھکا کر ہی قبر کے احاطے میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ یہ دروازہ چھوٹا رکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ شہنشاہ کے حضور سر جھکا کر داخل ہوا جائے۔ میں سر جھکا کر اس وسیع ہشت پہلو کمرے میں داخل ہوا، جہاں شہنشاہ محو خواب ہے۔ وسیع کمرے کے وسط میں شاہی قبر ہے اور کمرے کے آٹھوں کونوں میں سنگ مرمر کی جالیوں والی دیواریں۔ کمرے میں کوئی تعمیر یا آرائشی چیز نہیں اور نظر سیدھی اس قبر پر پڑتی ہے جو خوبصورت سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور جس کے تعویذ پر عقیق مرجان لاجورد نیلم اور دیگر قیمتی پتھروں کی پچی کاری سے خوبصورت پھول اور نازک بیلیں بنی ہوئی ہیں۔ ننانوے اسماء الحسنی کھدے ہیں۔ قبر کے اوپر خوبصورت خطاطی کی فارسی میں جہانگیر کا نام القاب کے ساتھ لکھا تھا۔

1307ھ۔ جہانگیر گرمیوں کا موسم کشمیر میں گزارا کرتا تھا۔ 1627ء میں بھی وہ کشمیر گرمیاں گزارنے گیا تھا اور اکتوبر میں واپسی کے سفر پر تھا کہ اسے آخری سفر کا پیغام آ گیا۔ 28 اکتوبر 1627ء کو مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر 58 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے جہاں گیر کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے پھرنے لگی۔ میں نے سوچا لیکن یہ بادشاہ کی اصل قبر کہاں ہے۔ یہ تو مصنوعی قبر ہے۔ اکثر مغل بادشاہوں کی طرح۔اصل قبر تو اس کے ٹھیک نیچے کئی منزل نیچے مقبرے کے تہ خانے میں ہے جہاں نہ کوئی جاتا ہے نہ جا سکتا ہے۔ آخری بار کون اصل قبر پر گیا ہو گا؟ کب گیا ہو گا؟ کہنا مشکل ہے۔

مقبرے سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سوچا کہ اسی شہر میں ایک درویش بھی محو خواب ہے۔ ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش۔ لو گ جوق در جوق آتے ہیں۔ مصنوعی قبر پر نہیں حقیقی قبر پر۔ یہ مصنوعی شان وشوکت والی قبر نہیں اور اس پر قیمتی پچی کاری بھی نہیں ہے لیکن یہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے اور قبر پر فاتحہ پیش کرنے کیلئے آنے والے بھی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں ہر وقت قرآن کریم پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ تو اصل میں شہنشاہ کون؟ بادشاہ یا درویش؟

جہانگیر کے مقبرے شاہدرہ لاہور سے لگ بھگ ساڑھے سولہ سو کلومیٹر دور خلد آباد اورنگ آباد مہاراشٹر بھارت میں اس کے پوتے کی قبر ہے۔ یہ ایک اور عظیم مغل شہنشاہ ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ پورے خانوادے میں عظیم ترین مغل شہنشاہ تھا۔ محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر۔ وفات 3 مارچ 1707ئ۔ وہ شہنشاہ جس نے مغل بادشاہوں میں سب سے طویل حکومت کی۔ نصف صدی تک حکومت اور ایسی وسیع حکومت کہ اللہ اللہ۔ مغل بادشاہت اس کے دور میں اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ ایک طرف اس کی قلمرو میں کابل اور قندھار تھے۔ دوسری طرف میانمار اور برما۔ پورا جنوبی ہند اس کا باجگزار تھا اور بنگالہ پر اس کا جھنڈا لہراتا تھا۔ اتنی بڑی سلطنت کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکی جس میں پورا برصغیر شامل ہو چکا ہو۔ کہا جاتا تھا کہ کنیا کماری سے کابل تک سب عالمگیر کا ہے۔ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر اس کے زیر نگین تھا لیکن 89سال کی عمر میں بڑھاپے اور علالت کے باوجود وہ احمد نگر بھنگر کی فوجی مہم پر خود گیا۔ وہیں اس نے دنیا کو خیرباد کہا اور اپنی وصیت کے مطابق شیخ زین الدین کی درگاہ کے ایک گوشے میں دفن ہوا۔ یہ بغیر مقبرے بغیر چھت کے ایک سادہ کچی مٹی کی قبر تھی جو کھلے آسمان تلے بنائی گئی تھی اور اس پر لمبے چوڑے القاب والا کوئی کتبہ نہیں تھا۔ مغلوں میں سب سے بڑی سلطنت کے مالک، سب سے زیادہ مال ودولت کے حامل نے نہ الگ مقبرہ بنوایا نہ اس کے گرد لمبے چوڑے باغات۔ یہ مصنوعی نہیں حقیقی قبر ہے۔ یہاں عقیق مرجان اور نیلم تو کیا سنگ مرمر کا تعویذ بھی نہیں تھا۔ بہت بعد میں چار دیواری بنائی گئی اور سنگ مرمر جڑا گیا لیکن آج بھی قبر کی چھت کچی ہے اور مٹی میں گھاس اگتی ہے۔ اس درگاہ میں لوگ کسی تکلف کے بغیر آتے ہیں اور شہنشاہ اور صوفیا کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔

میں حیرت سے وہ خبریں پڑھتا ہوں جو آج کل بھارت کی بڑی خبروں میں سے ہیں اور جس میں ہندو مظاہرین اورنگزیب کی قبر کو مسمار کرنے اور اس کی ہڈیوں کو نکال پھینکنے کے مطالبے کر رہے ہیں۔ ہندومسلم فسادات ہو رہے ہیں اور ناگپور بھارت میں شدید ہنگاموں مار کٹائی اور گھیرائو جلائو کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مسلمان خوفزدہ اپنے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انہیں ایک طرف ہندو انتہا پسندوں سے خطرہ ہے اور دوسری طرف پولیس سے۔ انہیں صوبائی حکومت سے لے کر مرکزی حکومت تک کسی سے انصاف کی توقع نہیں۔ اخباروں سے لے کر ٹاک شوز اور وی لاگز تک ہر ایک شخص اپنے تبصرے جڑ رہا ہے اور حسب معمول مسلمانوں پر ہی الزاما ت دھرے جا رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اورنگزیب کی قبر کو 317سال ہو چکے۔ اس مدت میں یہاں مرہٹوں کا مکمل راج رہا جن سے اورنگزیب کی مسلسل لڑائیاں تھیں لیکن وہ قبر کا احترام کرتے رہے بلکہ یہاں آتے رہے۔ مرہٹوں کے بعد بھی علاقے کے حکمران زیادہ تر ہندو رہے۔ انگریزی دورِ حکومت رہا اور بھارت کی آزادی اور ہندو حکومتوں کو بھی 78سال گزر چکے۔ یہ اچانک انتہا پسندوں کو اورنگزیب کی قبر کیسے یاد آ گئی۔

آپ کو مزید حیران کروں؟ حال ہی میں بننے والی ایک فلم کا ان ہنگاموں میں بہت بڑا کردار ہے جو اورنگزیب کے کردار کو نہایت منفی انداز میں پیش کرتی ہے اور مرہٹہ سردار شیوا جی پر ظلم وستم کو بیان کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ناگپور جہاں فسادات ہوئے ہیں، اورنگزیب کے مقبرے سے 450کلو میٹر ہے۔ یہ ہنگامے کیوں ہیں اور اس تعصب کی بنیاد کیا ہے۔ نیز اورنگزیب کا اصل کردار کیا تھا۔ یہ میں کسی اگلی تحریر میں پیش کرتا ہوں۔