شیخ ابو اسحاق الحوینی، جن کا اصل نام حجازی بن محمد بن یوسف بن شریف تھا، مصر کے ایک سادہ دیہاتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے تین شادیاں کی تھیں اور آپ اپنے پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کی پرورش ایک دیندار ماحول میں ہوئی، جیسا کہ اس دور کے اکثر دیہات میں عام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں کپاس کی چوری عام تھی۔ ایک دن ان کے والد نے اپنے کھیت کے پاس ایک شخص کو کپاس چراتے دیکھا، لیکن انہوں نے اس سے سامنا نہیں کیا بلکہ خود چھپ گئے تاکہ وہ شخص انہیں نہ دیکھ سکے۔ وہ اس وقت تک خاموشی سے کھڑے رہے جب تک وہ شخص کپاس لے کر چلا نہ گیا۔ یقینا یہ واقعہ ان کے والد کی چشم پوشی، تحمل اور بردباری کی اعلیٰ مثال ہے۔شیخ ابو اسحاق الحوینی علیہ الرحمہ کی کنیت ”ابو اسحاق” کسی بیٹے کی نسبت سے نہیں تھی، بلکہ یہ صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی کنیت سے تبرکاً اختیار کی گئی تھی، جبکہ الحوینی کا لقب ان کے آبائی گاؤں حوَین (واقع کفر الشیخ، مصر) کی نسبت سے تھا۔
آپ کا شمار موجودہ دور میں علم حدیث کے ماہرین میں سے ہوتا تھا اور اس موضوع پر ان کی کئی تصانیف بھی موجود ہیں۔ مرحوم کے علوم سے استفادہ کرنے والوں کے ہاں آپ بجا طور علم حدیث کا ایک ستون، احادیث کی سند متصل کا ایک سلسلہ اور آسمانِ حدیث کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کتابوں اور مخطوطات کے درمیان گزارا۔ آپ سنت سے محبت کرنے والے اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنے والے تھے۔ ان کے دروس میں علم، ادب، مزاح، شاعری اور کہانیاں سب کچھ ملتا ہے۔ آپ نے سلف کے تراث سے گرد جھاڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ کی نوجوان نسل کے دلوں میں رغبت پیدا کی۔
شیخ ابو اسحاق الحُوَینی محض ایک محدث ہی نہیں تھے بلکہ زمین پر چلتی پھرتی ایک درسگاہ تھے۔ ان کا ہدف تحقیق، ہتھیار دلیل اور خواہش یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بغیر کسی تحریف یا ضعف کے اپنی اصلی شکل میں باقی رہیں۔ آپ نے اپنی پوری زندگی علم دین کے لیے وقف کر دی تھی۔ آج اگرچہ وہ دنیا میں خود نہیں رہے، اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں، مگر وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے۔ ان کی آواز اب بھی تشنگان علم کے کانوں میں گونج رہی ہے، ان کی کتابیں اب بھی لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں اور ان کے فیضان علم سے آج بھی خلق خدا فیض یاب ہو رہی ہے۔
شیخ ابو اسحاق الحُوَینی 10جون 1956ء کو مصر کے کفر الشیخ صوبے کے گاؤں حْوَین میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک متوسط طبقے کے کسان گھرانے سے تھا۔ ان کے والد گاؤں کے معزز افراد میں شمار ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ کی والدہ بھی ان کے علمی سفر میں آپ کا بڑا سہارا تھیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد، انہوں نے جامعہ عین شمس (قاہرہ) سے ہسپانوی زبان میں گریجویشن کی اور اپنی بہترین تعلیمی کارکردگی کے باعث اسپین میں تعلیمی اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔تاہم اسپین جاکر وہاں کا ماحول پسند نہ آنے کی وجہ سے آپ زیادہ عرصہ اسپین میں نہ رہ سکے اور واپس مصر آکر مکمل طور پر دینی علوم کے حصول میں مشغول ہوگئے۔ انہوں نے عربی زبان، حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم میں وقت کے ممتاز اہل علم سے استفادہ کیا۔ آپ علم حدیث میں شیخ البانی، اصول فقہ میں شیخ محمد نجیب المطیع اور دعوت و خطابت میں شیخ عبد الحمید کے شاگرد تھے۔اس کے علاوہ آپ نے سعودی عرب میں شیخ عبد العزیز بن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین سے عقیدہ اور فقہ کے علوم میں استفادہ کیا۔ شیخ ابو اسحاق الحوینی جب تک مصر میں تھے، وہاں کئی مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی علوم پر دروس بھی دیتے رہے۔ ان کے دروس حدیث، تفسیر، فقہ، عقیدہ اور توحید کے موضوعات کا احاطہ کرتے تھے۔شیخ ابو اسحاق الحُوَینی علیہ الرحمہ کے اہل خانہ کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے دوران وہ قاہرہ کے نصر سٹی میں ایک کریانہ اسٹور پر دن کے وقت کام کرتے تھے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور رات کو تعلیم حاصل کرتے۔ اس سخت معمول کے باعث وہ بعض اوقات روزانہ صرف تین گھنٹے ہی سو پاتے تھے۔ نیز ابتدا میں مالی مشکلات کی وجہ سے وہ اپنی پسندیدہ علمی کتابیں خریدنے سے بھی قاصر رہتے تھے۔
شیخ الحوینی فکری طور پر سلفی علماء کے اس مکتب فکر سے وابستہ تھے، جو فقط حدیث، تفسیر اور فقہ کی تدریس اور نشر و اشاعت پر زور دیتا ہے اور سیاست سے دور رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ شیخ کو ابتدا ہی سے علم حدیث کے مطالعے، تصنیف، تحقیق، علمی مسائل کی تدوین اور ائمہ کے اقوال کی جستجو کا بے حد شوق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین تحریری صلاحیت بھی عطا کی تھی، پھر ان کی ادبی نشوونما نے اس شوق کو مزید تقویت بخشی۔ آپ عربی زبان، اشعار، کہانیوں اور امثال میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور ان کا یہ ذوق ان کی تقاریر اور دینی دروس و بیانات میں بھی نمایاں نظر آتا تھا۔ ان کی اسی محنت اور علمی شغف کے نتیجے میں متعدد تحقیقی منصوبے اور تصانیف وجود میں آئیں، جن میں سے کچھ طبع شدہ ہیں، جبکہ کچھ مخطوطات کی شکل میں موجود ہیں۔
شیخ ابو اسحاق الحوینی علیہ الرحمہ طویل عرصے سے بیماری میں مبتلا تھے اور 17مارچ 2025ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 68سال کی عمر میں انتقال کر گئے ور اگلے دن دوحہ کے مسیمیر قبرستان میں شیخ ابو اسحاق الحوینی کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کرتے ہوئے انہیں سفر آخرت پر رخصت کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی بشری فروگزاشتوں سے درگزر فرمائیں، ان کی دینی اور ملی خدمات کو قبول فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں، آمین