گزشتہ سے پیوستہ:
میں نے مولانا عتیق الرحمن ہزاروی کے ساتھ ان کے والد گرامی مولانا عزیر الرحمن ہزاروی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑی مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ہمارے ساتھ حد درجہ مشفق اور خلوص کے پیکر رہے۔ دارالعلوم حقانیہ کو ایسے فرزندوں پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والد نے فرمایا کہ تین شخصیتوں کا میرے اوپر بڑا احسان ہے۔ علمی حیثیت میں دارالعلوم حقانیہ اور شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کا، تربیتی حوالہ سے حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور تزکیہ و روحانیت کے اعتبار سے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کا۔ ان حضرات کے خانوادوں کاوہ دل کی گہرائیوں سے ادب و احترام کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کے والد مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کی شہرت اس وقت زیادہ تر روحانیت کے حوالہ سے ہے لیکن وہ اپنے وقت کے بڑے مجاہد بھی تھے، وہ حق کی تیغ بے نیام تھے۔
دارالعلوم حقانیہ کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر دعوت و تشہیر نہیں کی جاتی ہے لیکن حضرت ہزاروی ہر سال عمر کے آخری حصہ میں تسلسل کے ساتھ مادر علمی کے پروگرام میں تشریف لاتے اور بالخصوص شیخ شیر علی شاہ کی رحلت کے بعد اختتامی دعا آپ ہی سے کروائی جاتی۔ قاری عتیق نے کہا کہ والد ماجد نے اپنے استاد شیخ شیر علی شاہ کو بھی اعزازی طور پر خلیفہ بنایا تھا۔ شیخ صاحب تزکیہ نفس کے حوالے سے علماء و طلبہ کو ہزاروی صاحب کی طرف بھیجتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ شیخ صاحب بڑے روحانی مقام پر فائز تھے، جس طرح علمی مقام نمایاں تھا، اسی طرح روحانیت میں بھی پہنچے ہوئے تھے لیکن کسر نفسی زیادہ تھی اس لیے اپنی ذات کی نفی کرتے اور کہتے کہ یہ ہمارا کام نہیں اس کے اپنے رجال ہیں۔
محفل شیخ صاحب کے تذکار اور مولانا ہزاروی کے ذکر خیر سے خوب جمی تھی لیکن عمرے کی ادائی کی فکر بھی تھی لہٰذا ہم غسل کر کے حرم روانہ ہوگئے۔ مسجد امیر منصور جو ہنداویہ میں واقع ہے، وہاں نماز ظہر دو افراد کی جماعت سے پڑھی۔ ساڑھے تین بج رہے تھے۔ یہاں سے حرم شریف کا فاصلہ ڈھائی کلو میٹر ہے لہٰذا ٹیکسی میں ہم دو ساتھی 20ریال کرایہ طے ہونے پر روانہ ہوئے۔ روڈ پر گاڑیوں کا بے تحاشا رش نظر آرہا تھا۔ ہم جس گاڑی میں بیٹھے تھے وہ شخصی تھی۔ اس لیے اسے کبری (پل) منصور پر روک دیا گیا۔ چار و ناچار ہمیں پیدل سوا کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑ گیا۔ اس دوران تقریباً چار بجے اذان شروع ہوئی، اس کے پانچ منٹ بعد اقامت ہو چلی، ہم چلتے رہے۔ حفائرسے ٹنل کی جانب سے داخل ہوئے، وہاں باب فہد کی جانب سے اوپر خودکار سیڑھیوں سے اوپر چڑھے۔ حرم کے صحنوں میں ہزاروں انسانوں کا رش ہر طرف نظر آرہا تھاا۔ نماز کے بعد واپسی کرنے والے لوگوں کی بھیڑ سے واسطہ بھی رہا۔ ساڑھے چار بجے حرم کے مطاف میں نیچے اترے جہاں بہت زیادہ رش کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے آپس میں طے کیا کہ عمرے کا طواف کر کے نماز عصر ادا کریں گے۔ 4:40پر طواف کا آغاز کیا۔ کثرت ازدحام کی وجہ سے بہنوئی مجھ سے الگ ہو گئے۔ کچھ دیر بہنوئی کے لیے سبز لائٹ کے نیچے انتظار کیا لیکن رش کی وجہ سے دھکم پیل کی کیفیت سے واسطہ رہا، بالآخر سعی کے لیے روانگی اختیار کی۔
سعی کرنے کے لیے ہمیں تیسری منزل تک رخ دیا گیا۔ سعی کے آغاز میں قبلہ رخ ہو کر 20آیات قرآن کریم پڑھنے جتنا وقت توقف کیا، پھر سے سعی کا آغاز کیا تھا کہ اذان مغرب شروع ہوئی، وہاں عربیات چلانے والے چند نوجوانوں کے ساتھ بیٹھ کر افطار کیا، اذان کے بعد نماز مغرب شیخ سدیس کی امامت میں پڑھی۔ تقریباً سوا گھنٹہ میں سعی سے فراغت ہوئی۔ کچھ دیر وہاں دعائیں مانگیں اور پھر تراویح پڑھنے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں صفا کی طرف روانہ ہوئے۔ بیچ میں مطاف کی طرف راستہ پا کر وہاں نکل آیا۔ تیسری منزل مطاف کے کونے پرزمزم کے کولروںکے ساتھ جگہ مل گئی، جہاں جائے نماز ڈال کر عشاء کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ 8:30پر اذان ہوئی اور دو تین منٹ کے بعد اقامتِ نماز ہوئی۔ حج اور عمرے کے موقع پر جب زیادہ رش ہوتا ہے حرم میں اذان کے فوراً بعد نماز باجماعت کرائی جاتی ہے تاکہ زائرین کو انتظار کی زحمت نہ اٹھانا پڑے، نماز عشا کے بعد تراویح شروع ہوئی۔ یہاں کورونا کے بعد سے اب تک دس رکعت تراویح پڑھائی جاتی ہیں، حالانکہ وہ تو اضطراری حالات تھے۔ اس کے بعد سب کچھ اعتدال پر آگیا ہے لیکن اس سلسلے میں اب تک بات جوں کی توں ہے۔ سعودی حکومت کو اس پر عالم اسلام کے معتمد علماء کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بات حق پر مبنی ہے کہ جب دنیا کے لین دین اور دیگر امور سب بحال ہوچلے تو اب تک یہ عبادت میں کمی کا معاملہ کب تک جاری رہے گا۔ایک طرف تو قیام اللیل کا اضافہ آخری عشرہ میں اور دوسری طرف 20رکعت تراویح جس پر چاروں مذاہب متفق ہیں، میں اغماص حق کا معاملہ کیوں ہو رہا ہے۔ عموماً دس رکعت میں 6رکعت ایک امام پڑھاتا ہے اور 4رکعت دوسرا امام پڑھاتا ہے۔ لیکن آج شیخ سدیس نے نماز عشاء پڑھائی اور پھر چار چار رکعتیں دو ائمہ نے پڑھائیں اور آخری دو رکعت شیخ سدیس نے پڑھائی۔ وتر میں دعا اپنی عادت کے مطابق لمبی نہیں کی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں پون پارہ پڑھا گیا۔
سوا دس بجے ہم حرم سے واپس روانہ ہوئے۔ ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آرہا تھا۔ مجھے سواکلومیٹرپیدل کبری منصور تک آنا پڑا۔ برہنہ پاؤں تھا اس لیے کہ میرے جوتے بہنوئی کے پاس رہ گئے تھے۔ وہاں سے افریقن لڑکوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر دس ریال دے کر ہنداویہ پہنچا۔ حلق سے فراغت پر خانقاہ پہنچا تو یہاں قاری عتیق صاحب سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ افغانستان کے وزارت دفاع اور داخلہ کے بعض مسئولین اور علماء کرام تشریف فرما تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر حد درجہ مسرت کا اظہار فرمایا۔ ان حضرات میں حقانیہ کے فارغ التحصیل مفتی تسلیم اللہ حقانی جو کہ وزارت سرحدات کے ترجمان اور اطلاعات کے رئیس ہیں۔ دوسرے ساتھی مفتی عبدالمتین قانع ترجمان وزارت داخلہ کے فرائض نبھاتے ہیں۔ مفتی شاہ محمد (جو کہ وزارت دفاع میں مسؤل تھے لیکن مزاج میں تدریس کا غلبہ تھا اسی بنا پر اس مسئولیت سے علیحدگی اختیار کی) شامل تھے۔ ان حضرات نے مولانا حامد الحق کی شہادت پر تعزیت کی اور اس فعل شنیع کے مجرموں کو سخت برا بھلا اور بددعائیں دیں۔ مفتی عبدالمتین قانع نے کہا کہ حقانیہ کی عظمت کا تو چار دانگ عالم میں چرچا ہے، شاید بعض بدبختوں سے یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ پھر فرمایا کہ میرے والد نے حقانیہ سے دوبارہ دور ہ حدیث مولانا شیر علی شاہ کے تلمذ کے شوق میں 2010میں کیا۔ مولانا عتیق الرحمن نے اس موقع پر مولانا سمیع الحق کی تدریسی کمالات اور تحریری صلاحیات کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے حاضرین مجلس کو ان کی عظمت سے محظوظ کروایا۔ اس موقع پر گزشتہ روز پاکستان میں قومی سلامتی کے حوالے سے منعقدہ فوج اور سیاسی قیادت کے مشترکہ میٹنگ اور مولانا فضل الرحمن کے موقف کو قاری عتیق نے سراہا۔ خانقاہ میں تراویح میں کئی ختم قران شروع ہیں۔ ڈیڑھ بجے قاری عتیق نے دعا کروائی احقر تو آرام کے لیے لیٹ گیا۔ سحری کے موقع پر ان کی دعا پر احقر نے عرض کیا کہ الحمدللہ حضرت ہزاروی کے کمالات کی جھلک سب فرزندوں میں نظر آتی ہیں لیکن بطور اتم قاری عتیق میں اس کا ظہور ہو رہا ہے۔ لوگوں سے بھی یہی سننے میں آ رہا ہے اور کہتے ہیں کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
جناب گوہر صاحب جن کے والد صاحب کے یہاں جدہ پہ فیکٹری تھی۔ وہ کافی عرصہ سے یہاں مقیم ہے۔ ان کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی جن کا تعلق پبی ضلع نوشہرہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مولانا حامدالحق شہید کیلئے عمرہ مدینہ منورہ سے کیا۔ موصوف مولانا ہزاری کے معتقدین میں سے ہے۔ اور وہ یہاں خانقاہ میں گاہے گاہے آتے ہیں اور اکثر اوقات ہماری خدمت کرتے ہیں جنہوں نے آج کل پشاور میں ٹوور اپریٹر اور زائرین کی خدمت کیلئے ٹریول ایجنسی قائم کی ہے۔ یہاں مکہ میں بھی کام کرتے ہیں اور یہاں حجاج اور زائرین کیلئے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔