غزہ میں ایک بار پھر قتل عام کا آغاز!

انسانیت کے خلاف جرائم کے سرٹیفائیڈ مجرم ، صہیونی جنگی جنونی بھیڑیے نیتن یاہو نے چند ہفتوں کی خاموشی کے بعد مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرکے ایک بارپھر غزہ میں نہتے ،مجبور اورمحصور فلسطینیوں کا قتل عام شروع کردیا ہے اور منگل کی صبح غزہ کی خیمہ بستیوں پر سینکڑوں بم گراکر وسیع تباہی پھیلادی ہے کس کے نتیجے میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ساڑھے تین سو سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل نے تازہ حملے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی مشاورت اور منظوری سے کیے ہیں اور غزہ کی پٹی کے سرحدی علاقے کو ہدف بناکر وہاں کے لاکھوں باشندوں کو ساحل کی طرف دھکیلنے کی کوشش کا آغاز کردیا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے اور غزہ پر قبضہ کرکے وہاں عیاشی کے اڈے بنانے کے ٹرمپ کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔نیتن یا ہو کو جنگ بندی کے وقفے کے دوران داخلی سیاسی بحران کا سامنا رہا جس میں چند دنوں سے شدت آرہی تھی،اس لیے انہوں نے ایک بار پھر اپنا اقتدار بچانے کے لیے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

صہیونیوں کے ناپاک عزائم کے جواب میں فلسطینی مجاہد تنظیمیں خون کے آخری قطرے تک مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہیں اور ان کے ترجمان امتِ مسلمہ سے اور کچھ نہ سہی تو آخری درجے میں اپنے لیے عزت کی موت یا فتح کے حصول کی خاطر دعاؤں کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاہم خطے کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق فلسطینیوں کو طاقت سے ڈرا کر اپنی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کرنے کی امریکا اور اسرائیل کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔پندرہ ماہ کی گزشتہ جنگ میں طاقت کے بدترین استعمال کے باوجود اگر اسرائیل اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہا اور اسے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑا، تو مزید دہشت گردی اور بہیمیت کے ذریعے بھی وہ فلسطینیوں کی مقاومت کو نہیں توڑ سکے گا البتہ اس سے اس کا اپنا سفاک چہرہ دنیا کے سامنے مزید بے نقاب ہوگا۔ اسرائیل کو ٹرمپ انتظامیہ کی آشیر باد تو حاصل رہے گی تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے مظالم کے خلاف عالمی سطح پر بیداری کی فضا بڑھے گی جو ایک نہ ایک دن اس کا محاسبہ کرانے کا باعث بنے گی۔

صہیونیوں کے وجود میں بسی مسلم لہو کی نہ ختم ہونے والی پیاس کو دیکھتے ہوئے دنیا کے ہر منصف مزاج شخص کے لیے یہ فیصلہ آسان ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ نسلی برتری کے تفاخر، حسد اور غرور کے وہی مظاہر جو صدیوں سے ان لٹیروں، قزاقوں، دھوکا بازوں اور ظالموں نے نسل درنسل مسلمانوں کے خلاف پیش کیے آج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ جدید تعلیم نے ان کے نفسیاتی غرور کی اصلاح نہیں کی بلکہ اس میں دوچند اضافہ ہی کیا ہے۔ لادینیت اور سائنس کی قوت نے جس طرح چند صدیوں قبل موجودہ دہشت گردوں کے آباء و اجداد کو دنیا کے وسائل، قوموں کی آزادی اور دولت سلب کرنے اور دنیا پر اپنا سکہ جمانے کے لیے ہر قسم کے ظلم و فریب پر آمادہ کیا تھا آج بھی وسائل و دولت ہتھیانے کے لیے وہ قدیم روش کے مطابق زمین پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حرص، لالچ اور دھوکے پر مشتمل مزاج نے دنیا کے امن سے کھیلنا ان کے لیے سہل کر دیا ہے۔ کچھ قوتوں کی تشدد پسندی، تفاخر اور امن دشمنی کا ادراک کرنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جمہوری اصولوں مثلاً آزادیٔ تحریر و تقریر اور بچوں اور خواتین کے حقوق بنیادی قومی اقدار کا درجہ دینے کے باوجود وہ فلسطین میں ہونے والے مظالم کی درپردہ و علانیہ حمایت ہی نہیں کررہیں بلکہ ریاستی سطح پر وہ دہشت گرد صہیونیوں کے شانہ بشانہ جنگ میں اتری ہوئی ہیں۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر دنیا کی دیگر تہذیبوں کو خاک میں ملانے کے بعد وہ داخلی سطح پر جمہوریت کی عملی منکر ہوتی جا رہی ہیں۔ کروڑوں ریڈ انڈئینز کی لاشوں پر قائم ہونے والا امریکا جس نے پوری دنیا میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ رکھا ہے اور جمہوریت کا نام لے لے کر وہ دنیا کے مختلف ملکوں کو دھمکیاں دیتا اور ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کیا کرتا ہے خود اپنے ہی وجود میں جمہوریت دشمن روایات کو تقویت فراہم کر رہا ہے۔ آج امریکا میں آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹا جارہا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے طلبہ کو گرفتار کرکے فسطائیت کی انتہا کردی ہے۔ امریکا غیر متوازن ذہنیت کے حامل مخبوط الحواس ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد بالکل ہی باؤلاہوگیا ہے ،اس کے شر سے اب نہ اس کے پڑوسی کینیڈا کے لوگ محفوظ ہیں، نہ یورپ کے اتحادیوں کو وہ خاطر میں لارہا ہے ،اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے متعصبانہ اقدامات اب بالکل عیاں ہوکر سامنے آچکے ہیں۔

یہ منظر نامہ عالمی امن و استحکام کے لیے شدید خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام نہ روکا گیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور تشدد کا راستہ نہ روکا گیا تو پھر دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمان نوجوانوں کا کوئی بھی انتہائی اقدام غیر متوقع نہیں ہوگا۔ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی سوچ کسی بھی طرح دنیا کے امن کے لیے سود مند نہیں ہوسکتی۔ یہ درست ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اسرائیل کو عسکری طاقت کے ذریعے غزہ پر جارحیت روکنے پر مجبور کرسکے تاہم یمن کے حوثیوں نے بحر احمر میں موجود امریکی طاقت کی علامت سمجھے جانے والے طیارہ بردار جہاز ٹرومین پر دو دفعہ بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرکے (جس کی ویڈیو جاری کی گئی ہے) یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر غیرت و ہمت کا مظاہرہ کیا جائے جو ایک چھوٹی سی ریاست بھی امریکا اور اسرائیل جیسی طاقتوں کو جواب دے سکتی ہے۔ فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی حالیہ تاریخی مزاحمت بجائے خود اس کا ایک ثبوت ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر امریکا اور اسرائیل نے جنگ اور طاقت کے استعمال کے ذریعے من مانی جاری رکھی تو دنیا میں طاقت کے کھیل کے دیگر کھلاڑی بھی میدان میں آجائیں گے۔ روس یمن پر امریکی حملوں کی مخالفت کرچکا ہے اور غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے غیر قانونی منصوبے پر روس اور چین ہی نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس سمیت یورپی یونین سے وابستہ ممالک بھی اعتراض کرچکے ہیں۔ یہ ممالک امریکا کو مشرق وسطیٰ میں پھنسانے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ اس لیے امریکا اور اسرائیل کو یہ مہم جوئی مہنگی پڑسکتی ہے۔