گزشتہ دنوں خبر موصول ہوئی کہ امریکا میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کے ایک رکن کو ایوان سے صرف اس لئے باہر نکال دیا گیا کہ اس نے دوران اجلاس اپنی نشست پر کھڑے ہو کر صدر ٹرمپ پر تنقید کی تھی۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کے رکن کو ایوان سے نکالنے سے دنیا بھر میں عام آدمی کو یہ سبق ملا ہے کہ امریکی صدر پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ ایوان اقتدار میں احتجاج کی آواز کا بلند ہونا کوئی خبر تو نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر وہاں احتجاج نہیں ہوگا تو پھر اور کہاں ہوگا؟ تاہم ایوان کے اندر نوبت ہاتھا پائی، کرسیاں، مائیک اور جوتے چلنے تک پہنچ جائے تو پھرخبر بھی بن جاتی ہے۔ ماضی میں جاپان، برطانیہ، بھارت، پاکستان جیسے کئی اور ممالک میں ایسے واقعات کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کا یہ حال ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کو تمام ارکان نے اپنی نشستوں پر سکون سے بیٹھ کر سنا ہو۔ دونوں فریق بیک وقت اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اپوزیشن ارکان شور شرابہ اور احتجاج کرتے رہتے ہیں اور صدرِمملکت اپنا خطاب جاری رکھے رہتے ہیں اور سرکاری ٹی وی چینل والے صدر مملکت کو کلوزفریم میں براہ راست دکھاتے بھی رہتے ہیں اور سرکاری چینل کے ناظرین کو سب اچھا ہے کی خبر ملتی ہے جبکہ احتجاج کی خبر عوام تک سوشل میڈیا کے ذریعے اپوزیشن ارکان کے فون سے بنی ہوئی ویڈیوز کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِس کے باوجود بھی احتجاجی ارکان کو کسی اسپیکر یاصدرمملکت نے اِس جرم کی پاداش میں کبھی بھی ایوان سے باہر نہیں نکالا۔
اجلاس امریکی کانگرس کا ہو یا روس کی وفاقی اسمبلی کا یا برطانوی، بھارتی یا پاکستانی پارلیمنٹ کا، کہیں بھی احتجاج کے لیے پرتشدد رویہ اختیار کرنا درست نہیں ہے، جبکہ اپوزیشن کو اپنی بات سنانے کا موقع تو بہرحال دینا چاہیے، جبکہ یہ خود ان کے اپنے اقرار و اعتراف کے مطابق جمہوری اصولوں میں بھی بنیادی جمہوری اقدار میں آتا ہے۔ خصوصا اس وقت جبکہ اپوزیشن کے مفادات داﺅ پر لگے ہوئے ہوں، تب تو بہرحال اپوزیشن کو اپنی بات پہنچانے اور احتجاج کا پورا پورا حق دیا جانا چاہیے۔
امریکی کانگریس میں احتجاج کرنے پر کسی رکن کو یوں باہر نکال دینے کے واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا میں اب اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا ناممکن ہو چکا ہے اور دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کا پرچار کرنے والا امریکا خود جمہوریت اور جمہوری اقدار کو تیاگ کرنے آمریت کی راہ پر چل پڑا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر کی جنبش چشم پر مر مٹ جانے والے تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک کے غلام حکمران کیا کریں گے۔ اِس کا اندازہ انہیں اِس سے چند روز پہلے اوول آفس میں یوکرین کے صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے کر لینا چاہیے کہ امریکا بہادر کے سامنے جس کسی نے بھی سر اٹھانے کی کوشش کی، اس کا حشر اچھا نہیں ہوا۔
کانگریس سے کی جانے والی صدر ٹرمپ کی پونے دو گھنٹے کی طویل تقریر جہاں آٹھ کروڑ امریکیوں کو مایوس کر گئی، وہاں پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو خوش بلکہ نہال کر گئی، کیونکہ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں ان کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ شکریہ بھی ادا کیا۔ امریکی صدر کی زبان سے تعریفی کلمات سننے کے لیے پاکستان ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کے کئی حکمران دل و جان سے فدا ہو جانے کو ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی یہ تعریف البتہ امریکی صدر نے مفت میں نہیں کی ہے۔ یہ ستائش و تحسین دراصل امریکا کو مطلوب ایک افغان عسکریت پسند کو پکڑ کر امریکی حکام کے حوالے کرنے کا صلہ ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اب شریف اللہ نامی اس افغان عسکریت پسند نے امریکی محکمہ انصاف کے سامنے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے کہ وہ 2019ءتک افغانستان کی جیل میں رہا، جیل سے رہا ہونے پرداعش نے اسے موٹرسائیکل اور موبائل فون دلوایا۔ اس نے کینیڈا کے سفارتخانے اور ماسکو حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اِس کے علاوہ اس نے اگست 2021ء میں ایک خودکش حملہ آور کو کابل ایئرپورٹ کا راستہ دکھایا تھا جس نے حملہ کر کے 13امریکی فوجی اور 170 افغانوں کو جان بحق کر دیا تھا۔ شریف اللہ عرف جعفر کا یہ اعترافی بیان کس قدر سچا ہے، اِس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر جب ماضی کی ایسی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو شک ہوتا ہے کہ کہیں اِس کا اعترافِ جرم یا فردِ جرم بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی یا پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کے جیسا ہی نہ ہو۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر زیلنسکی کے ساتھ سلوک ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کے لیے مقامِ عبرت ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج یوکرین کو یہ دن دیکھنے اس لئے نصیب ہو رہے ہیں کہ اس نے تقریباً 30 برس قبل اپنے تمام ایٹمی اثاثہ جات اور میزائل ٹیکنالوجی کو ایک معاہدے کے تحت روس کے حوالے کر دیا تھا۔ امریکا، یورپی ممالک اور روس نے اس معاہدے میں یوکرین کے دفاع کی ضمانت دی تھی۔ پاکستان کے سیکولر، لبرل طبقہ اور این جی اوز کی جانب سے عموماً جو یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ معاشی طور پر تباہ حال پاکستان کو آخر ایٹمی صلاحیت برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے تو اس کا جواب انہیں اوول آفس کے واقعہ سے مل چکا ہے۔
امریکی صدر کی خوشی پر خوش ہونے اور امریکی صدر کی ناراضی پر مرمٹنے والے حکمران کبھی بھی اپنی قوم کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکا فرسٹ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے اگر اپنے ملک کے ایوان نمائندگان کے ایک رکن کو ٹھوکر مار سکتے ہیں تو تیسری دنیا کے عوام اور اس کے حکمران کی کیا حیثیت ہوگی؟ واضح رہے کہ پہلے بھی پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدرحلقوں کے افغانستان میں امریکی جنگ میں کودنے کے فیصلہ نے ملک کو اِس قدر نقصان پہنچایا کہ اس کا ازالہ آج تک نہیں ہو سکا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے درست کہا تھا کہ امریکا کا دشمن تو بچ سکتا ہے، اس کا دوست نہیں بچ سکتا، لہٰذاپاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ امریکا سے دوستی کے جھوٹے خواب دیکھنا بند کردے، اِس کی بجائے اس خطے کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ملک و قوم کے بہترین مفاد میں پاکستان کے تمام مسائل کے حل کے لیے پالیسی وضع کی جائے۔
