خلا مستقبل کا نیا میدانِ جنگ (محمد عبداللہ حمید گل)

کیا اسٹریٹجی اور عسکری مسابقت کی دوڑ میں خلا (Space) موجودہ دور میں ایک نیا میدانِ جنگ بن چکا ہے اور بڑی عالمی طاقتیں اپنی دفاعی خلائی صلاحیتوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں؟

دراصل یہ نیا جنگی محاذ روایتی ہتھیاروں سے مختلف اور زیادہ تر مصنوعی سیاروں مواصلاتی نیٹ ورکس اور خلائی اثاثوں پر مشتمل ہے۔ بلاشبہ جدید ترقی اور خلائی ٹیکنالوجی کی وسعت نے دفاعی شعبے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھا دی ہے۔ امریکی سنٹر برائے سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی رپورٹSpace Threat Assessment 2023 میں متنبہ کیا گیا ہے کہ خلا طاقت کے مقابلے کا مرکز بن گیا ہے۔ خلائی ٹیکنالوجیز دہرے مقاصد کی حامل ہوتی ہیں جیسا کہ نیویگیشن سسٹمز اور زمینی مشاہدے کے سیٹلائٹس جو کم مدارِ زمین (Low-Earth Orbit) میں اعلی ریزولوشن کیمروں سے لیس ہوتے ہیں۔ مذکورہ سسٹم کی دفاعی سٹریٹجی میں شمولیت سے نہ صرف آپریشنل صلاحیت کی قوت بڑھتی ہے بلکہ انٹیلی جنس نگرانی اور جاسوسی پوزیشننگ نیویگیشن اور ٹائمنگ کمانڈ اینڈکنٹرول سمیت ابتدائی وارننگ مواصلاتی رابطے اور درست ٹارگٹ ممکن ہوتا ہے۔ خلائی نظام جدید وار فیئر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے؛ چنانچہ خلا کی سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر امریکا چین روس بھارت اور دیگر ممالک اپنے بجٹ کا بڑا حصہ اس مقصد کیلئے مختص کر رہے ہیں۔
خلا میں فوجی صلاحیتوں کے تقابلی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا کا اس میدان میں بھی تسلط قائم ہے۔ اس کے بعد روس چین اور بھارت کا نمبر آتا ہے تاہم اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں خلا میں غلبے کی نئی دوڑ شروع ہوئی جس کے نتیجے میں سپیس فورسز قائم کی گئیں اور Anti-satellite weapons (ASAT) جیسی نئی ٹیکنالوجیز تیار کی گئیں۔ امریکی خلائی سٹریٹجی کا مقصد خلا میں کئی عشروں سے قائم اپنی برتری کو برقرار رکھنا ہے۔2019میں امریکی خلائی فورس کا قیام اور 2024میں 29.4ارب ڈالر کے سب سے بڑا خلائی دفاعی بجٹ پینٹا گون کی حکمت عملی ظاہر کرتا ہے۔ امریکا سپیس فورس سپیس ایکس بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن جیسی نجی کمپنیوں کے تعاون سے اپنی خلائی فوجی ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دے کر الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز اور سائبر سپیس صلاحیتیں میں مزید بہتری کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ خلا میں مزید جارحانہ عسکری کارروائیاں انجام دے سکے۔ روس اور چین بھی اس میدان میں امریکا کی برتری چیلنج کرنے کیلئے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ چین کے پاس جدید الیکٹرانک جنگی آلات ہیں جو امریکی سیٹلائٹس میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ چین اپنے دفاع میں خلا میں سٹریٹجک مقابلے کیلئے اپنے خلائی اثاثوں کے تحفظ اور انفارمیشن کے حصول کو یقینی بنانے پر زور دیتا ہے۔ امریکا اور چین اپنی فوجی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ مقابلہ اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں سیٹلائٹ جیمنگ سائبر جنگ اور خلائی نگرانی کے شعبوں میں جاری ہے۔ چینی سٹریٹجک سپورٹ فورس خلا سائبر اور الیکٹرانک جنگی کارروائیوں کو سنبھالتی ہے اور پیپلز لبریشن آرمی ایرو سپیس فورس خلائی آپریشنز کی نگرانی کرتی ہے جس پر سالانہ 10 ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے ”بیلٹ اینڈ روڈ سپیس انفارمیشن کوریڈور قائم کرنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔
روس کا خلائی پروگرام کسی وقت امریکا سے بھی آگے تھا لیکن 1991 میں افغان جنگ میں شکست کے نتیجے میں کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس کیلئے اپنا خلائی پروگرام جاری رکھنا ناممکن ہوگیا تھا۔ چنانچہ اب ماضی کی خلائی قوت اپنی سابقہ حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے امریکا اور چین کے ساتھ مقابلے میں ہے۔ روس اپنے گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم (GLONASS ) کو فوجی اور عام دونوں مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ 2021 میں اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں کے تجربے نے روس کو خلا میں ایک طاقتور ملک کے طور پر تسلیم کرایا جس کا مقصد امریکا اور نیٹو کے سٹریٹجک اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ روس اقتصادی چیلنجز کے باوجود سٹریٹجک عزائم رکھتا ہے جس کی واضح مثال 2024میں امریکا کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف پیش کردہ قرار داد کو ویٹو کرنا تھا۔ روس کی ایروسپیس فورس خلا میں عسکری مشنز کیلئے سرگرم ہے۔
بھارت چین کی خلائی ترقی کو جواز بنا کر اپنی خلائی قوت بڑھا رہا ہے اور اس نے اپنے سٹریٹجی شراکت داروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں جن میں یو ایس انڈیا سپیس سکیورٹی ڈائیلاگ اہم ہے۔ بھارت نے 2019 میں ڈیفنس سپیس ایجنسی قائم کی جو خلائی دفاعی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ بھارت خلا میں اپنی فوجی صلاحیت کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اس کے جاسوسی سیٹلائٹس اینٹی سیٹلائٹ میزائل اور نیویگیشن سسٹم کا مقصد ہمسایوں بالخصوص پاکستان کی نگرانی و جاسوسی کرنا اور فوجی اثاثوں کو غیر موثر بنانا ہے۔ دہرے استعمال کی حامل ٹیکنالوجیز جیسا کہ Geosynchronous سٹیلائٹس (GSAT ) Cartosat Earth Observation سیٹلائٹس انڈین ریجنل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم (IRNSS ) بھارت کی سٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ بھارت جغرافیائی معلومات کے حصول میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے امریکی پارٹنر شپ کا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے ۔ 2019 میں کیے گئے اینٹی سیٹلائٹ میزائل تجربے کا مقصد بھارت کا خود کو ایک خلائی طاقت کے طور پر پیش کرنا تھا۔
پاکستان کی پہلی خلائی پالیسی 2023 میں بنائی گئی تھی تاہم پاکستان کا خلائی پروگرام امریکا روس چین اور بھارت جیسے ممالک کے مقابلے میں ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اور وہ چین اور ترکیہ جیسے دوست ممالک کے تعاون سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی قوتوں کی سپیس سٹریٹجی ٹیکنالوجی کی ترقی اور خلائی امور کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا رجحان ملٹرائزیشن سے سپیس میں ہتھیاروں کی دوڑ کی جانب منتقل ہو رہا ہے جبکہ Outer Space Treaty 1967 زمین کی نچلی سطح کے مدار (LEO) میں ہتھیاروں کی تنصیب پر تو پابندی عائد کرتی ہے مگر اس میں اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں اور الیکٹرانک وارفیئر پر سخت قوانین موجود نہیں۔ بڑی طاقتوں نے 1980کی اقوام متحدہ کی قرارداد The Prevention of an Arms Race in Outer Space کو ویٹو کر رکھا ہے۔ وہ اپریل 2024 میں خلا کو اسلحے سے پاک کرنے پر پابندی سے متعلق تازہ ترین قرارداد پر بھی متفق نہیں ہو سکے۔ جس سے ان کے درمیان عدم اعتماد ہی نہیں مستقبل میں خلا کو اسلحے سے لیس کرنے کے ارادے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ یقینا خلا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے نتیجے میں ایٹمی جنگ کے امکانات میں اضافہ ہو گا اور عالمی امن و امان پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب خلا کے مستقبل کے حوالے سے نجی خلائی کمپنیوں کے عمل دخل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی بڑی مثال روس یو کرین جنگ میں سپیس ایکس کی یوکرین کو روس کے خلاف سٹارلنک سیٹلائٹ کی خدمات کی فراہمی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین سٹارلنک کو ڈرون حملوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی سٹارلنک کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں زمین اور خلا دونوں میں انفرادی طور پر یا نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو زمین پر سائنسی حوالے سے ترقی یافتہ ممالک نے بڑی طاقتوں کے طور پر اب خلا کو بھی اپنے لیے میدانِ جنگ بنا لیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ خلا میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز ہو چکا ہے جو مستقبل میں کم ہونے کے بجائے تیز تر ہی ہوتی جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو بھی ان خلائی پیش رفتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے تناظر میں کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے خلائی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا۔