بلوچستان میں اہم قومی شاہراہوں کی بندش اور بولان میں حالیہ جعفر ایکسپریس کے المناک واقعے کے بعد کوئٹہ سے اندرون ملک جانے والے لوگوں کی سفری سرگرمیاں تقریباً محدود ہو گئی ہیں۔ موجودہ حالات میں قومی شاہراہوں پر سفر کرنا کسی بڑے خطرے سے کم نہیں جبکہ ریل اور بسوں کی سروس معطل ہونے کے باعث فضائی سفر میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تاہم ٹکٹوں کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے کوئٹہ سے دیگر شہروں کا سفر عام لوگوں کے لیے نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ ایئر لائنز کے کرایے حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں یہاں تک کہ بعض پروازوں کے ٹکٹ 95 ہزار روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
قومی شاہراہوں کی بندش کے باعث عوام کے لیے واحد متبادل فضائی سفر ہی رہ گیا ہے مگر اس کے کرایے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں۔ کرایوں میں بے پناہ اضافے نے لوگوں کو تقریباً اس سہولت سے محروم کر دیا ہے۔ اب جب عید قریب آ رہی ہے ہر سال کی طرح اس بار بھی لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیاں منانے کے لیے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بار وہ شدید کشمکش کا شکار ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی صورتحال، مسلسل بدامنی، اور بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات نے ہر فرد کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ سفری مشکلات اور مہنگے ہوائی ٹکٹوں کے باعث شہری ذہنی دباو کا شکار ہیں، اور ان حالات میں اپنے گھروں کو لوٹنا ایک مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں کسی چیز یا سروس کی طلب بڑھتی ہے، منافع خور مافیا فوراً متحرک ہو جاتی ہے۔ عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے یہ بے حس اور سنگدل لوگ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں، جنہیں دوسروں کی مشکلات اور تکالیف کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا۔ کوئٹہ سے دیگر شہروں کے لیے ہوائی جہاز کا کرایہ جو عام دنوں میں 15سے 20ہزار روپے ہوتا تھا، یک دم 90 سے 95 ہزار تک جا پہنچا ہے۔ یہ بے تحاشا اضافہ لوگوں کے لیے شدید مشکلات کا سبب بن رہا ہے، خاص طور پر بیمار اور ضرورت مند افراد کے لیے جو کسی ایمرجنسی یا ناگزیر وجوہات کی بنا پر سفر کرنا چاہتے ہیں۔ ان ظالمانہ کرایوں نے انہیں ضروری سفر سے بھی محروم کر دیا ہے۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ مصروف شاہراہ کوئٹہ کراچی ہائی وے ہے، جو گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلسل احتجاج اور دھرنوں کے باعث بارہا بند رہی۔ اس کے علاوہ سندھ سے ملانے والی کوئٹہ-بولان-جیکب آباد شاہراہ اور کوئٹہ-ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ بھی شدید بدامنی، لوٹ مار اور جرائم کی وارداتوں کی زد میں ہیں جس کی وجہ سے ان پر سفر کرنا غیر محفوظ اور خطرناک بن چکا ہے۔ حالیہ جعفر ایکسپریس سانحے نے عوام کے خوف و ہراس میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور سفری سہولیات کے حوالے سے حکومت کی ناکامی کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے لیے محفوظ سفری سہولیات ایک خواب بن چکی ہیں، کیونکہ حکومت انہیں تحفظ فراہم کرنے میں تقریباً مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ کسی بھی قومی شاہراہ پر ریاستی رٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لوگ جان و مال کے تحفظ کے بغیر خطرناک راستوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ متعلقہ ادارے اور حکومت زبانی دعووں کے سوا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔
بلوچستان کے لوگوں کو محفوظ اور آرام دہ سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ خصوصاً فضائی سفر کو آسان اور سستا بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جانے چاہییں۔ اس مقصد کے تحت دیگر نجی ایئر لائن کمپنیوں کی پروازیں فوری طور پر شروع کی جائیں تاکہ لوگوں کو مزید سفری سہولت میسر ہو۔ مزید برآں فضائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں مناسب کمی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے خصوصی پیکجز متعارف کروائے جائیں تاکہ عام شہری بھی ہوائی سفر کی سہولت سے مستفید ہو سکیں۔
یہ اقدامات نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کی سفری مشکلات کم کریں گے بلکہ صوبے کی مجموعی ترقی اور مواصلاتی رابطوں کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے پر توجہ دیں اور فضائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں کمی، نجی ایئر لائنز کی حوصلہ افزائی، اور شاہراہوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ عوام کو سفری سہولتوں میں بہتری کا احساس ہو سکے۔
