پارلیمانی سال، صدر کا خطاب اور حکومت (عرفان احمد عمرانی)

پارلیمانی سال پورا ہونے پر جمہوری روایات کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے آٹھویں بار بطور سویلین صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرکے نیا جمہوری ریکارڈ قائم کر دیا۔

صدر مملکت نے حکومت اور اپوزیشن کو عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کی ہدایت کی ہے۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت کو دریا ئے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کو ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ صدر زرداری کا خطاب شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے شور و اویلا اور نعرے بازی کی کرکے اپنی ”روایت“ پر قرار رکھی، عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ صدر نے تاجروں کے خدشات کے باوجود حکومت کی ’سب اچھا‘ کی رپورٹوں پر معیشت کو مستحکم تسلیم کرلیا۔ صدر نے قانون کی حکمرانی قائم اور سیاسی و اقتصادی استحکام کے حوالے سے حکومت کو توجہ دینے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی توقعات پر پورا اترا جائے اور آئندہ پارلیمانی سال میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی نے صدر کے خطاب کو تاریخی قرار دے دیا۔
دوسری جانب وزیراعظم نے بلاول کو افطار ڈنر پر بلایا جس پر بلاول سمیت پی پی کے وفد نے شکایات کی بوچھاڑ کردی اور دریائے سندھ سے نہریں نکالنے پر نرم لہجے میں احتجاج کیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی صرف پارلیمانی اتحادی ہے، ساتھ ہی تحفظات بھی رکھتی ہے۔ پی پی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے رویے سے بھی نالاں ہے۔ وزیراعظم نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے سے صوبے بھر میں تشویش ہے۔ وزیراعظم نے وضاحت کردی کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پنجاب کے مسائل کے حل کے لیے ہفتے کو لاہور میں اجلاس طلب کرلیا۔ شہباز شریف نے کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں مل کر متنازع معاملات حل کریں گی، اس حوالے سے اسحاق ڈار کو ٹاسک دے دیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے احتجاج کا سامنا اور 26ویں آئینی ترمیم کا معرکہ سر کر کے اپنی حکومت کا سال مکمل کر لیا۔ شہباز شریف نے اپنی ایک سالہ کارکردگی کی کامیابی کے بلند بانگ دعوے کیے ہیں۔ اب تک آنے والی حکمتوں میں شہباز حکومت واحد حکومت ہے جس نے اپنے دور میں مہنگائی میں کمی کا دعوی کیا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے برعکس بجلی اور گیس کی قیمتوں میں چار گنا اضافہ کر کے حکومت مہنگائی میں کبھی 8فیصد کمی اور کبھی 6فیصد تک کمی کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ آئے روز پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر کے وزیراعظم مہنگائی میں کمی کا جشن منا رہے ہیں۔ معاشی استحکام کا بھی نعرہ لگایا جا رہا ہے جبکہ زمینی حقائق حکومت کے دعووں کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ مہنگائی اس قدر بلند ترین سطح پر ہے کہ غریب کی زندگی مشکل ترین ہو کر رہ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی پہلی بار ہماری خود مختاری پر حد سے زیادہ مداخلت ہو رہی ہے۔ ہمارے بجٹ، ٹیکسز، یوٹیلٹی بلوں کے ٹیرف بھی اسی عالمی ادارے احکامات پر مقرر کیے جا رہے ہیں۔ تاجر طبقہ ٹیکسوں کی بھرمار سے سخت پریشان ہے، تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ چھوٹے تاجروں کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہو گیا، جبکہ حکومت معیشت کے استحکام کی بات کر رہی ہے۔
دوسری طرف تاجر تنظیموں نے حکومتی دعویٰ مسترد کردیا۔ معاشی بدحالی قرار دے دی۔ ملک میں مزید بدترین مہنگائی نے غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں سنگین اضافہ کر دیا، جبکہ ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے والے بے روزگاروں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے دعوے دار ڈاکٹر زبھی بیرون ملک ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ فیکٹریاں صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ انڈسٹری بھی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ ملک کی ایک سالہ صورتحال پرکوئی ایک پارٹی نہیں بلکہ عوام، تاجر، صنعت کار خود متاثر اور حالات کا رونا رو رہے ہیں۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی ایک موقع پر مالی بد حالی کا تذکرہ کرتے نظر آئے۔ وزیراعظم شہباز شریف، سعودیہ، امارات، ازبکستان، تاجکستان سے ودیگر ممالک سے معاہدوں کے نام پر امداد لیتے نظر آرہے ہیں، قوم پر قرضوں کا حجم بڑھ گیا۔
مسلم لیگ ن کی اتحادی وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ جنوری 2025ء تک مرکزی حکومت کے قرضے ریکارڈ 72 ہزار 123 ارب روپے ہوگئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ جولائی 2024ء سے جنوری 2025ء کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں 3 ہزار 209 ارب روپے جبکہ جنوری کے ایک مہینے میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں 476 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ فروری 2024ء سے لے کر کر جنوری 2025ء کے ایک سال میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں7 ہزار 283 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جنوری 2025 ءتک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 72 ہزار 123 رب روپے رہا، جس میں مقامی قرضہ 50 ہزار 283 ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ 21 ہزار 880 ارب روپے تھا۔ دسمبر 2024 ءتک وفاقی حکومت کے قرضے 71 ہزار 647 ارب اور جون 2024ء تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 68 ارب 914 ارب روپے تھا جبکہ جنوری 2024ء تک وفاقی حکومت کے قرضے 64 ہزار 840 ارب روپے تھے۔ حکومت کی حالت زار بتارہی ہے کہ’سب کچھ اچھا‘نہیں ہے۔ جمعیت علماءاسلام، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی سال کی کارکردگی کو ناکام ترین قرار دے دیا۔ پی ٹی آئی نے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیاہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی نے سال بھر حکومت کے خلاف محاذ گرم کیے رکھا، اسلام آباد میں کئی بار چڑھائی کی، گرفتاریاں ہوئیں بھی ہوئی مگر سال گزرنے کے باوجود بانی پی ٹی آئی رہا نہ ہو سکے۔ اب گرینڈ الائنس بنانے کے لیے اپوزیشن رہنما متحرک ہیں مگر مولانا کے بغیر حکومت مخالف بڑے اتحاد کا امکان نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف موجودہ سیاسی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ایک اپوزیشن اتحاد کے قیام کے لیے سرگرم نظر آ رہی ہے، لیکن جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف پارٹی کی جانب سے ماضی میں کی گئی بد زبانی اور وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کا موجودہ رویہ اس میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سیاسی اشتراک کے قیام کی امید میں پی ٹی آئی کے جن رہنماﺅں نے جے یو آئی ف والوں سے رابطہ کیا ہے، انہیں ماضی میں پی ٹی آئی والوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے خلاف جاری کیے گئے ریمارکس کے حوالے سے تحفظات بتا دیے گئے ہیں۔ اگرچہ جے یو آئی ف والے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ نہیں کر رہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی والے پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کریں۔ بات چیت جاری ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے اب تک جے یو آئی ف والوں کے تحفظات کا جواب نہیں دیا۔ جے یو آئی ف نے اپوزیشن اتحاد کی قیادت پر اصرار نہیں کیا بلکہ اپنے تحفظات سے پی ٹی آئی کو آگاہ کیا ہے۔ جے یو آئی ف کے علاوہ پی ٹی آئی کو دیگر مخالف دھڑوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنے ممکنہ اتحادیوں کے لیے یکطرفہ طور پر شرائط کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتی۔ مشاورت کی کمی سے خدشات پیدا ہوئے ہیں جس میں اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کے سیاسی انداز سے محتاط نظر آتی ہیں۔