کامیابی سے حقیقی کامیابی تک

کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جسے سوشل میڈیا کے دور میں سب سے زیادہ لکھا گیا، بولا گیا اور سرچ کیا گیا۔ ”کامیابی” کی تلاش میں امریکا سے لے کر ایشیا تک دنیا کے ہر ملک، ہر قوم اور ہر قبیلے نے جان ہلکان کردی، زندگیاں لگادیں اور جانیں قربان کردیں مگر تلاش زیست سے لوٹنے والے ان قافلوں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ”کامیابی” کس چیز کا نام ہے؟ کیا دھن، دولت، پیسہ، گاڑی، بنگلہ، لگژری لائف اسٹائل اور لامحدود خرچ کامیابی کی معراج ہے؟ آج سوشل میڈیائی سراب اور وٹس ایپ و فیس بک زدہ خیالات پر چھائی دھند کا حاصل بطن و معدہ سے آگے جانے کا سوچ ہی نہیں رہا۔ کیا یہی ہماری منزل ہے؟ اگلے روز یار من مفتی سیف اللہ صاحب نے کہا: مرنے کے بعد تو تین چیزیں ہی باقی رہتی ہیں: صدقہ جاریہ، علمی ورثہ اور نیک اولاد۔ ہم نے ان تینوں کے لیے کتنی تیاری کی؟ ان تینوں کے حوالے سے کوئی پلاننگ ہماری زندگی کا حصہ ہے؟ پاکیزہ دولت اور حلال کمائی بھی بلاشبہ فرائض میں سے ایک فرض ہے لیکن مقصد زندگی؟ نہیں ہرگز نہیں۔

ورنہ سرکار دوجہاں یوں نہ فرماتے: بے شک مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے، بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے بارے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں شریک ہوجائوگے۔ (بخاری: 4085)
ابن ملجم نے جب خلیفة المسلمین حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی تو آپ کی زبان سے نکلا: فزت و رب الکعبہ، خدائے کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ بئر معونہ میں شہید ہونے والے ستر خوش نصیبوں میں موجود حرام بن ملحان یاد آگئے، جنہوں نے اپنے بہتے خون کو چہرے اور سر پر ملا اور پکار اٹھے: رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔

دور کیوں جائیے! فلسطین کے اس جانباز، سرفروش، وفاکش اور جفاکیش 62سالہ لیڈر یحییٰ السنوار کو ذہن میں لائیے، جس کی زندگی کے 22سال جیل کی کال کوٹھڑی میں گزر گئے۔ 6 اگست کو حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور 41دن بعد اس رب کے پاس پہنچ گئے، جس کا نام بلند کرنے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے۔ اور کس شان سے پہنچے کہ ہاتھ گولیوں سے چھلنی ہو چکا ہے، جسم زخموں سے چور ہے، غزہ کے ایک تباہ حال، کھنڈر گھر میں مٹی سے اٹے صوفے پر بیٹھے ہیں، ہاتھ میں اے کے 47ہے اور بس۔ لاکھوں کامیابیاں اور کروڑوں رفعتیں اس کی گرد راہ۔ کامیابی ضرور حاصل کیجئے، مگر اس کا مطلب واضح کر لیجئے۔ زندگی کا کوئی ایسا مقصد جسے رب کی بارگاہ میں پیش کرسکیں۔

روز قیامت جب آسمان پھٹ جائے گا، چاند، ستارے اور سیارے تباہ ہوجائیں گے، زمین دھڑ دھڑ کانپے گی، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے اور ہر شخص اپنی جان کو لیے ہلکان، حیران و پریشان ہوگا۔ تب اعمال کا حساب ہوگا اور ایک شخص کو اس کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا، تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہوگا۔ جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں چلاگیا، وہی تو کامیاب ہے۔ جسے یہ کامیابی مل گئی، اس سے بڑا کامیاب دنیا میں کوئی نہیں۔
کبھی سوچتا ہوں اپنی آدھی دولت اللہ کے رستے لٹانے والے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کامیابی کا کون مقابلہ کرسکتا ہے؟ اپنی تجارت دین پر قربان کرنے والے ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی کامیابی کا تصور کون کرسکتا ہے؟ دولت کمائیے کہ یہ بھی فرض ہے۔ مگر اسے کامیابی کی معراج نہ قرار دیجئے۔ دنیا میں کامیابی کو حقیقی کامیابی کا ذریعہ بنائیے۔
پل بنا، چاہ بنا، مسجدو تالاب بنا
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

برادرم مولانا عبدالحی جامعة الرشید کے ہونہار طالب علم ہیں۔ انہوں نے برما سے سفر کیا اور پاکستان میں آکر علم کی پیاس کو بجھایا، طالب علمی کے دور میں ہی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھا اور تخصص کے ایک سال بعد ہی ”کامیابی کے راز” کے نام سے یہ کتاب لکھ ڈالی۔ میرے طالب علم بھائیوں کے لیے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔ اس کتا ب کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک طالب علم کیسے کامیابی کے رستے پر گامزن ہوسکتا ہے؟ عملی زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ لقمان حکیم کی سو نصیحتیں کیا ہیں؟ ایسے بہت سے عنوانات کے گرد گھومتی یہ کتاب آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔ آپ میں محنت کی جوت جگا سکتی ہے۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو پڑھنے اور علمی ترقی کی شمع ضرور روشن کرسکتی ہے۔ کتاب اس نمبر سے حاصل کی جاسکتی ہے: 03479428045