تیونسی مؤرخ اور فلسفی علامہ ابن خلدون کی شاہکار تصنیف مقدمہ کو کئی سوسال گزرنے کے باوجود ابھی تک تاریخ کی اہم ترین کتاب سمجھا جاتا ہے۔ ابن خلدون وہ پہلا مسلمان تاریخ دان تھا جسے اہل مغرب نے نہ صرف اہمیت دی بلکہ یہ تسلیم کیا کہ وہ عمرانیات (سوشیالوجی) کا بانی ہے۔ ابن خلدون کی کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ اسلام بھی دلچسپ اور وقیع کتاب ہے مگر اصل اہمیت اسے مقدمہ ہی سے ملی۔ ابن خلدون نے اس میں مختلف تہذیبوں اور سلطنتوں کا تجزیہ کرکے ان اصولوں کی نشاندہی کی جوعروج وزوال کا سبب بنتے ہیں۔ مقدمہ میں لکھے گئے بہت سے اہم نکات ایسے ہیں جو اپنی جگہ طویل بحثوں کا موضوع ہیں۔
ابن خلدون نے بتایا کہ کئی عظیم الشان سلطنتیںمحض اس لئے تباہ ہوگئیں کہ رفتہ رفتہ ان کی قومی قیادت کمزوریوں کا شکار ہوگئی۔ اپنے وقت کے اہم چیلنجوں کا سامنا کرنے کے بجائے اس وقت کے حکمران عیش وعشرت میں پڑ گئے یا پھر ان کی توجہ کا مرکز نسبتاً غیراہم ایشوز بنتے رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب ان غلطیوں کا ازالہ بھی ممکن نہ رہا۔ اس وقت کوئی اہل حکمران بھی زوال کے عمل کو روک نہیں سکا۔ ابن خلدون کو پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ اس کی فکر کی تازگی اور ہمارے زمانے سے متعلق ہونے کا احساس ہوا۔ خاص کر پاکستان کے حوالے سے۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ اگر پاکستان کو زوال سے نکال کر ترقی کی منزلوں تک لے جانا ہے تو پھر ہماری اشرافیہ، حکمرانوں کو بڑے، جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ اب یوں لگ رہا ہے کہ شاید ایسے فیصلوں کی طرف بڑھنے کا کہیں سوچا تو جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اگلے روز ایک بڑی دلچسپ، اہم اور غیر معمولی رپورٹ پڑھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کوتیزرفتاری سے ڈیجیٹل کرنے کا مربوط پلان بنا لیا گیا ہے جو کہ بہت کچھ بدل دے گا۔ اس حوالے سے دلچسپ اعدادوشمار بیان کئے جاتے ہیں۔
پاکستان کی جی ڈی پی رواں سال 4سو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ (411 Billion)ہوچکی ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان کی غیررسمی معیشت یعنی جو رجسٹرڈ نہیں ہے وہ جی ڈی پی کے پچاس ساٹھ فیصد کے قریب ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر ہم اپنی اس متوازی معیشت کو ریکارڈ میں یعنی دستاویزی بنا لیں تو ہماری جی ڈی پی چار سو سے بڑھ کر ساڑھے پانچ، پونے چھ سو ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ یہ ہماری حقیقی معیشت ہوگی۔ اندازے کے مطابق اس میں دس سال کا عرصہ لگنا متوقع ہے۔ اس سے بہت کچھ بدل جائے گا۔ معیشت کی رینکنگ، گروتھ ریٹ، ٹیکس نیٹ، ریونیو کولیکشن وغیرہ وغیرہ۔ جو ڈیڑھ پونے دو سو ارب ڈالر کی غیر رسمی معیشت دستاویزی ہوگی تو اس پر ظاہر ہے ٹیکس بھی دینا ہوگا۔ یہ سب کچھ بڑا ہی دل خوش کن اور شاندار لگ رہا ہے۔ ضرورت بس اس امر کی ہے کہ اس پر سختی اور مستقل مزاجی سے عملدرآمد کیا جائے۔
اسی طرح کے فیصلے ہمیں اپنی انرجی کے حوالے سے بھی کرنے ہوں گے۔ تیل اور گیس کی ہمارے ملک میں قلت ہے، اگر چہ بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ صرف چند برسوں قبل تک ہم گیس کے حوالے سے خودکفیل تھے، آج یہ حال ہے کہ بڑے شہروں میں بھی صرف کھانے کے و قت دو تین گھنٹوں کے لئے گیس آتی ہے۔ یہ بحران ہر سال بڑھ رہا ہے۔ اس کا حل ایک ہی ہے کہ ہنگامی بنیاد پر بڑے فنڈز مختص کر کے تیل اور گیس کے نئے کنوئیں تلاش کئے جائیں۔ پٹرول پر ہماری امپورٹ کا خاصا بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے۔ اتنا سمجھ لیں کہ اگر کسی معجزے سے ہم پٹرول کے حوالے سے خودکفیل ہوجائیں تو ہماری معیشت کا خسارہ فوری ختم ہو جائے گا۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیںتو پوری دنیا ہل جاتی ہے۔ پندرہ بیس سال قبل ایک امریکی ماہر معاشیات کا ایک آرٹیکل شائع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا کہ آئندہ چند برسوں میں پٹرول سو ڈالر فی بیرل تک جا سکتا ہے۔ اس مضمون کا باقاعدہ مضحکہ اڑایا گیا۔ فکاہیہ کالم نگاروں نے ان صاحب کو دور کی کوڑی لانے والا قنوطی قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ بیس بائیس ڈالر فی بیرل کی قیمت پانچ گنا بڑھنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ سو ڈالر فی بیرل تک قیمت ایک بار جا کر نیچے آئی ہے اور یہ دوبارہ ہوسکتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اقتصادیات کے حوالے سی خاکسار کی مہارت اسی قدر ہے جتنی ہمارے چئیرمین کرکٹ بورڈ کی کرکٹ سے واقفیت۔ اس کے باوجود دو تین باتیں بڑی واضح نظر آرہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ اب سستے تیل کا زمانہ لد چکا۔ پٹرول کی قیمت دوبارہ بیس تیس ڈالر فی بیرل ہونے کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ پاکستانی حکومت کو پٹرول کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ پٹرول کادرآمدی بل ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ اس نے تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھا دیا۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح پٹرول اور گیس کے مزید ذخائر ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ اگلے پندرہ بیس برسوں تک اپنی معیشت کو مستحکم رکھ سکیں، اس کے بعد ممکن ہے زمانہ کچھ ایسے بدل جائے کہ انرجی کے ان ذخائر کی شایدزیادہ ضرورت نہ رہے۔ عالمی بنک اور غیر جانبدار اقتصادی ماہرین مسلسل انتباہ کر رہے ہیں کہ اگلے چند برسوں میں وسیع پیمانے پر غذائی بحران آسکتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں اجناس کی فراوانی کوئی مسئلہ نہیں، صرف اخلاص نیت کی ضرورت ہے۔ دیہی پنجاب اور دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس وقت عام کاشت کار کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ زرخیز ترین علاقوں میں بھی زمین ٹھیکے (سرائیکی میں مستاجری) پر لینے والاکوئی نہیں مل رہا۔ لوگ پچھلے ٹھیکے واپس کر رہے ہیں۔ کسانوں کو بیج، کھاد اور زرعی ادویات پر سبسڈی اب دینی ہی پڑے گی۔ گندم کی امدادی قیمت میں معقول اضافہ کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ پانی کا ہے۔ عالمی ادارے برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگلی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ پاکستان میں بڑے آبی ذخائر نہ بنا کر بدترین غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس قدر متنازع ہو گیا کہ اس پر پیشرفت ممکن نہ رہی۔ بھاشا ڈیم، مہمند، داسو وغیرہ پر کام شروع کر کے عقلمندی کی گئی مگر وہاں پر کام کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بڑے ڈیمز بنانے کے ساتھ پنجاب کے میدانی علاقوں میں بیراجوں کے ساتھ آف لائن سٹوریج بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ پنجاب میں چنیوٹ کے علاوہ کوئی اور ڈیم نہیں بن سکتا، تو چلو چنیوٹ ڈیم ہی بنا لیا جائے، بیراج کے ساتھ آف لائن سٹوریج سے سیلابی ریلوں کا دباؤ کم ہوجائے گا۔ بہت سے قارئین اس سے بے خبر ہوںگے کہ کالاباغ ڈیم جس قدر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اتنا پانی ہرسال کچے کھالوں سے رس کر ضائع ہوجاتا ہے۔ بڑے ڈیم پر کئی ارب ڈالر لاگت آتی ہے، اس سے سوگنا کم لاگت سے کچے نالے پختہ کر کے اتنا پانی ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں مختلف حکومتیں اس حوالے سے دعوے کرتی رہی ہیں، مگر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عملی طور پر کچھ زیادہ نہیں ہوسکا۔ اگرموجودہ حکومتیں خاص کر پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومت ادھر توجہ دے تو بہت کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔
ایک اور بڑا ایشو کراچی شہر کو سنبھالنا ہے۔ اگر ہم کسی الزام تراشی کے کھیل میں نہ پڑیں اور سیدھا سادا نتیجہ اخذ کریں تو وہ یہ ہے کہ کراچی شہر کا انفراسٹرکچر بھی تباہ حال ہے، شہری محکمے بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہے، کراچی کے مکینوں کی زندگیاں بہت مشکل میں ہیں۔ انہیں آسانی دینی چاہیے۔ وفاق مدد کرے، سندھ حکومت خصوصی بجٹ مختص کرے۔ شہر کی سڑکیں، گلیاں بازار ٹھیک کئے جائیں، ٹریفک کے مسائل حل ہوں، لوگ بڑے ٹرک، ٹرالرز، ڈمپرز وغیرہ کے نیچے آ کر مر رہے ہیں، یہ مسئلہ تو آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ سٹریٹ کرائم ایک بار پھر بہت بڑھ چکا ہے۔ یہ سب چیزیں چند ماہ میں ٹھیک ہوسکتی ہیں۔ ادھر توجہ دینی چاہیے۔ کراچی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، اس کی دیکھ بھال اور خیال رکھنا پورے ملک کی ذمہ داری ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ فقرہ ہم نے بہت بار سن رکھا ہے، مگر یاد رکھیں کہ یہ واقعی بڑا نازک دور ہے۔ چاروں طرف سے فتنوں کی یلغار ہے۔ حسن ا تفاق سے اہم قومی سیاسی جماعتیں حکومت میں اکٹھی ہیں۔ ہماری قومی اجتماعی قیادت کو وقت کی نزاکت سمجھنی چاہیے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہم نے اب بھی جرأت مندانہ فیصلے نہ کئے تواگلی نسل کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہماری قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ بسااوقات صدیوں کی مستعدی بھی ایک لمحہ کی غفلت کا ازالہ نہیں کر پاتی۔

