پانچویں قسط:
استنبول ایرپورٹ پر خوبرو چہرے والے سرخ و سپید نوجوان آفیسر نے میرا پاسپورٹ لیتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانکا۔ پھر پاسپورٹ پر مہر لگاکر مسکراتے ہوئے مجھے واپس کردیا۔ آخری سیکورٹی گیٹ پر میری اور ہینڈ کیری کی اچھی طرح تلاشی ہوئی۔ یہاں سے فارغ ہوکر میں جیسے ہی آگے بڑھا۔ جگ مگ کرتے ہوئے ایک نیوین سائن بورڈ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔استنبول ایرپورٹ چونکہ بہت بڑا ہے، جنکشن شمار ہوتا ہے۔ یہاں سے دنیا بھر میں فلائٹیں جاتی ہیں، اس لیے اس سائن بورڈ پر بیسیوں فلائٹوں کے نمبرآرہے تھے۔ میں 10 منٹ کھڑا اپنی مطلوبہ فلائٹ” TK708” تلاش کرتا رہا۔ جب یہ نمبر کہیں بھی نظر نہ آیا تو میں تھوڑا سا پریشان ہوگیا۔ ساتھ کھڑی ایک ادھیڑ عمر خاتون کو میں نے ”ہائے” کہہ کر مخاطب کیا اور ان کے سامنے بورڈنگ کارڈ پر درج نمبر دکھاکر اشاروں میں پوچھا کہ یہ گیٹ کہاں ہے تو اس سے ہاتھ کی انگلی سے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سائن بورڈ پر تلاش کریں۔ میں قدرے گھبرایا ہوا وہاں پہنچا تو اس پر سب سے اوپر ہی ”TK708” کا گیٹ نمبر لکھا ہوا آرہا تھا۔
میں مطمئن ہوگیا اور پھرگیٹ تلاش کرتا ہوا ویٹنگ روم میں جابیٹھا۔ یہاں بیٹھ کر میں نے گھڑی دیکھی توایک گھنٹہ باقی تھا۔میں نے کوٹ کی جیب سے فون نکالا اوردوستوں کو اطلاع کردی کہ میں استنبول سے برسلزکے لیے روانہ ہورہا ہوں۔ آپ سب کا بہت شکریہ، دعائوں میں یاد رکھیے گا۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے، اللہ حافظ! اتنی دیر میں ترکش اور انگلش میں انائونسمنٹ ہوئی ”TK708”والے طیارے میں سوار ہوجائیں۔ میں بھی سوار ہونے کے لیے لائن میں لگ گیا۔ 10منٹ بعد جہاز میں داخل ہوگئے۔ ترکش ایرلائن کا یہ طیارہ نیا نیا سا لگ رہا تھا۔ آرام دہ اور پرسکون تھا۔ تمام مسافر بڑے اطمینان اور وقار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی بھی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کررہا تھا۔ اگر کسی کو انجانے میں کسی کی کو ہنی لگ جاتی تو وہ فوراً ”سوری” کا لفظ کہہ دیتا۔ اس مرتبہ بھی مجھے ونڈو والی سیٹ ملی تھی، اور یہ میری پسندیدہ سیٹ کہلاتی ہے، اس لیے کہ میں نظارہ کرنے کا شوقین ہوں۔ سیٹ پر آرام سے بیٹھنے کے بعد میں نے موبائل کا کیمرہ آن کیا اور تصاویر لینے لگا۔ میں کیمرے کو زوم کرکے استنبول کی تصاویر لے رہا تھا اور سوچ رہا کہ نجانے دوبارہ ترکی کب آنا نصیب ہو، لہٰذا اپنے محبوب کو جی بھر کر دیکھ لو۔ اس کی یادیں اپنے دل کے علاوہ کیمرے کی آنکھ میں بھی محفوظ کرلوں۔
میں خود کلامی کی کیفیت میں جہاز کی کھڑکی سے تصاویر لے رہا تھا کہ انائونسمنٹ ہوئی: ”تمام مسافروں سے گزارش ہے کہ وہ بیلٹ باندھ لیں۔ عنقریب ہم پرواز کرنے والے ہیں۔ ”اس کے ساتھ ہی ترکش ایرلائن کے نئے سے طیارے نے رینگنا شروع کردیا، اور پھر رفتہ رفتہ تیز سے تیز تر ہی ہوتا چلاگیا۔ ایک ہلکا سا جھٹکا لگا۔ دل میں کچھ گدگدی سی ہوئی اور جہاز فضاء میں پرواز کرنے لگا۔ میں نے ہینڈ کیری سے مسنون دعائوں والی کتاب نکالی اور سفر کی دعائیں پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ اس کے بعد مناجات مقبول پڑھنے لگا، کیونکہ سفر پر جاتے وقت میرے شیخ و مرشد نے ہدایت کی تھی کہ مناجاتِ مقبول کا ضرور اہتمام کرنا۔ جہاز کو پرواز کیے آدھا گھنٹہ ہوچکا تھا۔ وقت چونکہ دوپہر کا تھا، لہٰذا ایرہوسٹس کی طرف سے تمام مسافروں کو کھانے کی ٹرے پیش کی جانے لگی، کھانے کے بعد چائے، کافی، قہوہ، کولڈڈرنک اور چائے کا دور شروع ہوگیا۔ میں برسلز پہلی مرتبہ جارہا تھا، اس لیے اس موضوع پر لکھی ہوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔ کتاب کھولتے ہوئے میرے ذہن پر ترکی ہی سوار تھا کہ ترکی میرا عشق ہے، ترکی میرا جنون ہے، ترکی میرا محبوب ہے، لیکن جیسے ہی میں نے کتاب کھولی تو ایک شعر پر نظر پڑی کہ… ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں… ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں… اور پھر ہم بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز پہنچ گئے۔
بیلجیئم ہم پہلی مرتبہ جا رہے تھے۔ بیلجیئم کے معیاری وقت کے مطابق ایک بج کر 25منٹ پر ترکش ایئر لائن کا طیارہ 1943 TKبیلجیئم کے دار الحکومت برسلز (Brussels) ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔بیلجیئم قدیم زمانے میں رومی سلطنت کے ما تحت رہا ہے۔ پھر وسطی یورپ کی مختلف طاقتوں، جیسے ہسپانیہ، آسٹریاا اور فرانس وغیرہ کے زیر اثر بھی رہا۔ 1815ء میں Congress of Vienna کے بعد نیدرلینڈ کے ساتھ الحاق ہوا، مگر 1830ء میں بغاوت کے بعد علیحدہ ریاست کے طور پر وجود میں آ گیا۔ بیلجیئم کا پہلا بادشاہ Leopold Iنے 21جولائی 1831کو حلف اٹھایا۔ اس دن کو بیلجیئم کا قومی دن بھی مانا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب میں بیلجیئم آگے رہنے والے ملکوں میں رہا۔ دونوں عالمی جنگوں میں بھی یہ اہم ملک ثابت ہوا۔ اور بعد میں جدید وفاقی ریاست میں تبدیل ہوا۔بیلجیئم کا کُل رقبہ تقریباً 30,600مربع کلو میٹر ہے۔ یہ یورپ کے چھوٹے ممالک میں شمار ہوتا ہے، مگر آبادی کی کثافت بہت زیادہ ہے۔ یکم جنوری 2025ء کو سرکاری اندازے کے مطابق آبادی تقریباً ایک کروڑ، 18لاکھ، 25ہزار، 551ہے۔ آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور مختلف نسلی و لسانی طبقات پر مشتمل ہے۔ بیلجیئم ملک میں تین زبانیں رائج ہیں: ڈچ، فرانسیسی اور جرمن۔ بیلجیئم میں وفاقی و آئینی بادشاہت ہے۔ مملکت کا سربراہ بادشاہ اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہے۔۔ اس وقت وزیر اعظم Bart De Wever ہیں، جنہوں نے 3فروری 2025ء کو عہدہ سنبھالا۔ (جاری ہے)

