دوسری قسط:
٭شراب کی محفلوں میں فقہائے کرام کا مذاق اڑایا جاتا۔ اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتا کہ یہ پیالہ میں فقہاء کے ”اندھے پن” کے نام پر پیتا ہوں۔ ٭ ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا گیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔ ٭غسلِ جنابت کو منسوخ کر دیا گیا۔ ٭ ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ سولہ سال سے کم عمر لڑکے اور چودہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح ممنوع قرار دیا گیا۔ ٭حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ و بازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیں یا چہرے کو اس وقت کھول دیا کریں۔ ٭ زنا کو قانوناً جائز قرار دیا گیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے۔ ٭بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ٭ مردہ کو دفن کرنے کی بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیا جائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیا جائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیا جائے۔ ٭سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قرار دیا گیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔ ٭ شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کر دیا گیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قرار دیا گیا۔ ٭ حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہو کر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً و قہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے۔ ٭ یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کر دی جائے اور نجوم، طب، حساب اور فلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ ٭ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اور حدیث پڑھنے والے مردود و مطعون ٹھہرائے گئے۔
ملا عبد القادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کر رہی ہے۔ ٭ ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کر دیا۔ ٭ ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتا ہے اور راز و نیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتا ہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتا ہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔ ٭احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ‘رحمت’ ہی کے نام سے پکارتا تھا۔
٭علمائے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔ ٭ نماز، روزہ اور حج ساقط ہو چکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز ادا کر سکے۔ ٭نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام ”تقلیدات” رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔ ٭ اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔ ٭جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردود اور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ”فقیہ” رکھ دیا جاتا تھا۔
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسباب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیر و تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصور کیا جاتا تھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت اور تعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا۔ پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم و جبر کی تکون قائم کر دی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قرار دیا۔ بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم و جبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیر و تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اور علم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کر کے پاپائیت کی نفی کر دی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیر و تشریح کی اساس بنی۔ (جاری ہے)

