مارٹن لوتھر، اکبر بادشاہ اور ہمارے جدید دانشور

تیسری و آخری قسط:
مغرب کی معروضی صورتحال ایسی ہی تھی اور مغرب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یا نہیں اور ہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیلِ نو کی ہے اور مسیحیت کی تعبیر و تشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کردیا ہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اور جیسا کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ ‘پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کر لیا جائے’ ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اَب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔

ہمارے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی:(١) ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیر و تشریح میں فقہاء کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبر نے شخصیت کی بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابوبکر صدیق کو کسی نے ‘خلیفة اللہ’ کہہ کر پکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا اور کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔

پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابوحنیفہ نے کہی ہے یا امام شافعی نے کہی ہے ۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتا ہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعی کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتا ہے کہ ان کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔ جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کر رہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قرار دینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں۔ اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد اُن کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ارشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟

(٢) اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے لیے اس کی تعبیر و تشریح کے پرانے فریم ورک کو چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ مارٹن لوتھر نے ایسا ہی کیا تھا جبکہ دین کی تعبیر و تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اور گنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جاسکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرونِ مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم و جبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم و جبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیر و تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جا سکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر، عوام کے حقوق کی خاطر اور ظلم و جبر کے خلاف ہر دور میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم و جبر کا حوصلہ و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔اس لیے دین کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد و تقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے، مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قرار دینے پر مصر ہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے روایتی نظام اور فریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کر کے دین کی ”ری کنسٹرکشن” کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیرنو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اور ہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیا تھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں۔ اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصور کیا جا رہا ہے۔ کیا حدیث کے الفاظ میں یہودو نصاریٰ کی ”قدم بہ قدم پیروی” کی اس سے بہتر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟