انکشافات سے بھری بائیوگرافی

حسین نقی بہت سینئر اور ممتاز صحافی ہیں، ان کا صحافتی کیریئر نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط تھا۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور جرائد کے ساتھ کام کیا۔ وہ جنگ گروپ کے معروف انگریزی اخبار دی نیوز کے بانی تھے۔ لکھنوی اور اردو اسپیکنگ ہونے کے باوجود انہوں نے لاہور سے پنجابی کا پہلا اخبار سجن نکالا، جس میں اس وقت کے کئی معروف لکھاریوں نے کام کیا۔ حسین نقی پاکستان کے چند انتہائی بااصول اور دیانت دار صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں، انگریزی کی اصطلاح ڈیڈ آنسٹ ایسے ہی لوگوں کے لیے بنی ہے۔

حسین نقی صرف دفتر میں کام کرنے والے صحافی نہیں رہے، وہ ایکٹوسٹ تھے، صحافت اور صحافیوں کے لیے انہوں نے قربانیاں دیں اور مشکلات بھی اٹھائیں۔ بھٹو صاحب کے ساتھ ان کے قریبی مراسم تھے، اس کے باوجود ان کی کاٹ دار تحریروں کے باعث بھٹو دور میں انہیں قریشی برادران اور مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ گرفتار کیا گیا، کئی ماہ قید وبند کی صعوبت کاٹی۔ وہ ضیاء دور میں بھی جیل میں رہے، بھٹو صاحب کو جس رات پھانسی دی گئی، وہ رات حسین نقی جیل میں تھے۔ حسین نقی کی کچھ عرصہ قبل بائیوگرافی ”مجھ سے جو ہو سکا” شائع ہوئی ہے، جمہوری پبلی کیشن کے فرخ سہیل گوئندی نے یہ چھاپی ہے۔ بائیوگرافی کے نام ہی سے انکسار ظاہر ہو رہا ہے، تاہم حسین نقی نے بڑی بھرپور زندگی گزاری اور بلند و ارفع آدرشوں سے ہمیشہ جڑے رہے۔ ان کی پیدائش 1936کی ہے یعنی وہ اس وقت لگ بھگ 90سال کے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے اپنی ذاتی اور صحافتی زندگی کی یادیں بیان کی ہیں، مگر اس میں پاکستان کے کئی عشروں کی تاریخ بھی سمٹ آئی ہے، خاص کر 50، 60، 70 اور 80، 90 کے عشروں کی بھرپور عکاسی ہوئی۔ اس کتاب میں حسین نقی نے اپنے مخصوص سادہ اور منکسرانہ انداز میں کئی انکشافات کیے ہیں۔ بہت سی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ان کا بچپن اور لڑکپن لکھنو میں گزرا، تحریک پاکستان کو بھی انہوں نے ایک اسکول بوائے کے طور پر دیکھا، اس حوالے سے بھی بعض دلچسپ باتیں بیان کی ہیں۔

حسین نقی کے مطابق اودھ کی ریاست کی وجہ سے لکھنو میں مسلمانوں کے پاس بہت جائیدادیں اور زمینیں تھیں۔ 1947کے بعد جب کانگریس نے زرعی اصلاحات کیں تو ایک وجہ یہ بھی تھی کہ زیادہ تر جاگیریں، زمینداریاں مسلمانوں ہی کے پاس تھیں اور ان کا سیاست میں بڑا اثر ورسوخ تھا۔ ان پر نزلہ اس لیے بھی گرا کہ 1947سے قبل ان لوگوں نے مسلم لیگ کی مدد کی تھی۔ یعنی زرعی اصلاحات صرف نہرو کے سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے نہیں ہوئیں بلکہ اس کے پیچھے کانگریس کی مسلمان زمینداروں سے ناراضی بھی کارفرما تھی۔

ایک بہت دلچسپ بات اس کتاب سے یہ پتہ چلی کہ تحریک پاکستان کے دنوں میں لکھنو وغیرہ میں کانگریس یہ پروپیگنڈا کرتی تھی کہ جن علاقوں میں 23مارچ کی قرارداد لاہور کے مطابق پاکستان بننا ہے ان میں یوپی تو ہے ہی نہیں، اس لیے یوپی کے مسلمان کانگریس کا ساتھ دیں۔ اس بات میں وزن تھا، مسلم لیگ نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ یہ بات مشہور کر دی گئی کہ پاکستان مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب، سندھ، سرحد، بنگال میں بنے گا، مگر بنگال اور دوسرے صوبوں کو ملانے کے لیے سہارن پور سے کلکتہ تک ایک راہداری بنے گی جس سے یوپی والے بھی پاکستان میں شامل ہو جائیں گے۔ حسین نقی کے بقول کم از کم یوپی میں بہت سے مسلمان اس راہداری والے سیاسی بیانی کو حقیقت سمجھتے تھے۔ حسین نقی کا یہ بھی تاثر ہے کہ کانگریس والے دانستہ قائداعظم کو قومی لیڈر نہیں کہتے تھے۔ سروجنی نائیڈو نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتے ہوئے دراصل ان کا سیاسی قد گھٹانے کی کوشش کی تھی۔ 1947سے کچھ پہلے گاندھی جی کو اس غلطی کا احساس ہوا، مگر تب بہت دیر ہو چکی تھی۔

مسلم لیگ کے ممتاز لیڈر راجہ صاحب محمود آباد سے حسین نقی کی بہت ملاقاتیں رہیں کیونکہ لیفٹ کے ایک لیڈر راجہ صاحب کے داماد تھے۔ راجہ صاحب نے ایک بار واقعہ سنایا کہ وہ بمبئی سے مسلم لیگ کے کسی جلسہ میں شرکت کیلئے حیدرآباد دکن گئے۔ وہاں نواب بہادر یار جنگ مرکزی مقرر تھے۔ شام کو راجہ صاحب واپس آگئے، وہ بمبئی میں قائداعظم کے گھر ٹھہرتے تھے جو ان کے والد کے گہرے دوست تھے اور راجہ صاحب محمود آباد اس رشتے سے قائداعظم کو انکل کہتے تھے۔ ناشتے کی میز پر قائداعظم دکن کرونیکل اخبار پڑھ رہے تھے جس میں حیدرآباد جلسہ کی خبر تھی، خبر میں لکھا تھا کہ راجہ صاحب نے کہا کہ ہم پاکستان میں شریعت نافذ کریں گے۔ قائداعظم نے راجہ صاحب سے پوچھا کہ یہ بات آپ نے کہی تھی؟ ان کے اقرار کرنے پر قائداعظم نے اس کی تردید کی۔

حسین نقی نے ایک اور بات لکھی ہے جو کم از کم میرے لیے بالکل نئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1947 میں 3جون کے معاہدے کے بعد واضح ہو گیا کہ پاکستان بننے والا ہے۔ تب یہ بحث چھڑ گئی کہ ملک کا دارالحکومت کونسا شہر ہوگا۔ قائداعظم نے سوچا تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت لاہور کو بنایا جائے جو اس وقت متحدہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا۔ قائد نے اس حوالے سے پنجاب مسلم لیگ کے لیڈر میاں ممتاز دولتانہ سے بات کی تو دولتانہ نے کہا کہ ہمارا صوبہ تو پہلے ہی تقسیم ہو گیا ہے، اب ہم اس منقسم صوبے میں سے مزید جگہ وفاقی دارالحکومت کیلئے کیسے دیں؟ تب جولائی 1947میں کراچی کو عارضی مرکز بنایا گیا۔ پھر جب ملک بننے کے بعد کراچی کو مستقل مرکز بنانے کی بات چلی تو اس دور کے وزیر ایوب کھوڑو کو اس پر سخت اعتراض تھا، ان کی تقاریر کا ریکارڈ آئین ساز اسمبلی میں موجود ہے۔ کراچی کو مستقل مرکز بنانے کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں اپریل 1948میں انہیں وزارت اعلی سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔1947کے ایک دو سال بعد ہی خوشاب کے پاس جوہرآباد کو مرکز بنانے کی بات لیاقت علی خان کے زمانے ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ اے جی پی آر کا وہاں دفتر بھی بنا، کچھ مزید عمارتیں بھی بنائی گئیں۔ پھر اسلام آباد کی بات ہونے لگی۔ اسلام آباد ایوب خان کے دور میں دارالحکومت بنا، مگر اس کی سوچ پہلے سے موجود تھی۔

حسین نقی کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ ممتاز دولتانہ نے نجانے کیا سوچ کر لاہور کو وفاقی دارالحکومت بنانے کی مخالفت کی، حالانکہ اگر ایسا ہو جاتا تو لاہور کو بہت فائدہ ہونا تھا۔

نقی صاحب نے 1970 کے الیکشن سے پہلے شیخ مجیب الرحمن کے لاہور میں ایک جلسہ کا ذکر کیا جس میں وہ بھی موجود تھے۔ گول باغ میں ہونے والے اس جلسہ میں شیخ مجیب نے دو اہم باتیں کی تھیں۔ مجیب الرحمن نے کہا کہ اگر ہم الیکشن جیتیں گے تو دو کام فوری کریں گے۔ پہلا یہ کہ ویسی زرعی اصلاحات کی جائیں گی جو جگتو فرنٹ نے مشرقی پاکستان میں کی تھیں، دوسرا یہ کہ بنگالیوں کی سول ملٹری بیوروکریسی میں ان کی آبادی کے تناسب سے چھپن فی صد نمائندگی ہونی چاہیے۔ ہم اقتدار میں آ گئے تو یہ ہدف پورا کریں گے اور جب تک یہ ہدف پورا نہیں ہوتا، تب تک مغربی پاکستان میں سول ملٹری افسروں کی بھرتی پر پابندی رکھیں گے۔ حسین نقی کے بقول انہوں نے مجیب کی تقریر سننے کے بعد اسی دن بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ شیخ مجیب کی اس تقریر کے بعد تو سول ملٹری اشرافیہ اپنی نوکریاں بچانے اور جاگیردار اپنی زمینیں بچانے کے لیے آپ کے ساتھ آ جائیں گے۔

1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اصل کامیابی پنجاب سے ملی۔ پیپلز پارٹی کو ملنے والے 61لاکھ ووٹوں میں سے 45لاکھ ووٹ صرف پنجاب سے پڑے۔ حسین نقی کے تجزیے کے مطابق بھٹو صاحب نے جس جرات سے ایوب خان کا سامنا کیا، اسے پنجابی عوام نے پسند کیا۔ بھٹو کے ریڈیکل ریفارمز کے ایجنڈے کو بھی پسند کیا گیا۔ 1970کا الیکشن عام پنجابیوں نے بھٹو صاحب کے لیے لڑا۔ پارٹی کے تمام کام کرنے میں نوجوان اور خواتین پیش پیش رہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر وہ موجود تھے، انہوں نے خود بیلٹ باکس پر پہرا دیا۔ بھٹو نے نچلے طبقات اور درمیانے طبقات سے کچھ لوگوں کو امیدوار بھی بنایا، لیکن جس وڈیرے اور جاگیردار نے ان کی پارٹی جوائن کر لی، ان سب کو بھی ٹکٹ دیا۔ حسین نقی نے انکشاف کیا کہ ستتر کے الیکشن سے پہلے جب بھٹو صاحب کو اپنے ذرائع سے اندازہ ہوگیا کہ وہ آسانی سے الیکشن جیت جائیں گے تو انہوں نے جنوبی پنجاب اور دیگر جگہوں پر بڑے ذمینداروں کو پیغام بھیجا کہ آپ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ میں الیکشن جیتنے والا ہوں۔ ممتاز دولتانہ نے یہ بات خود تسلیم کی کہ انہیں بھی بھٹو نے ایسا ہی پیغام بھیجا تھا۔

(1970ء کے الیکشن کے بعد جو کچھ ہوا، بھٹو نے جس طرح حسین نقی کو گرفتار کرایا، بھٹو دور، پی این اے کی تحریک اور پھربھٹو کی پھانسی، ضیاء دور اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا۔ کس طرح کم وقت میں حسین نقی نے دی نیوز اخبار نکالا اور پھر میر شکیل الرحمن کے کہنے پر فوری استعفا دیا، یہ سب ڈرامائی واقعات حسین نقی کی اس سوانح حیات میں بیان کیے گئے۔ وہ مگر کسی اور نشست میں۔)