اخبار کے صفحے پر اعداد وشمار جھلملا رہے تھے، جو بڑے ہی روشن اور خوشخبری سنا رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ماہ جولائی سے ستمبر 2025ء تک بیرونی فنڈنگ میں گزشتہ برس کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 39فیصد اضافہ ہوا۔تین ماہ میں ایک ارب 81کروڑ ڈالر سے زائد کی بیرونی فنڈنگ ہوئی۔ مگر ان اعداد وشمار کے پیچھے مجھے ایک چیخ بھی سنائی دے رہی تھی، ایک مزدور کی، کاری گر کی چیخ جس کی کارگاہ کے دروازے اب زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ مزدور کو اب بھی مہینے میں 10سے 12روز کی دیہاڑی نصیب ہوتی ہے۔ ملک میں ڈالر تو یقینا آئے ہوں گے مگر اس کا کیا کیجیے کہ بہت سے کارخانے اب بھی بند ہیں، بیرونی فنڈنگ بڑھی ہے تو نوکریاں بھی بڑھنی چاہئیں۔ یہاں فنڈنگ بڑھ رہی ہے ، سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، لیکن نوکریاں نہیں بڑھ پارہیں، البتہ بے روزگاری کے قافلے بڑھ رہے ہیں۔ میٹرک کرکے نکلا ہوا جوان بھی نوکری مانگ رہا ہے اور پی ایچ ڈی والا بھی نوکری کی تلاش میں ہے۔
درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن برآمدات میں اضافے کی شرح حسب توقع بالکل نہیں ہے۔ یعنی جتنا باہر سے خریدا اتنا بیچا نہیں ہے۔ باہر سے خریدا ہوا سامان صنعت کو ناگوار گزر رہا ہے۔ مزدور کہتا ہے کہ ہم قرض کے طالب نہیں ہیں، ہم روزگار مانگتے ہیں۔ بیرونی فنڈنگ کے اعداد کتابوں میں چمکتے ہیں مگر ان کے سائے میں بیٹھا مزدور اب بھی اپنے ہاتھوں کی جھریوں میں روزی تلاش کرتا ہے۔ ایسی ترقی ایک عارضی سانس ہو سکتا ہے جس میں حکومت کے اعداد مسکراتے ہیں، حکام اطمینان کا سانس لیتے ہیں لیکن مزدور کی سانس رک جاتی ہے۔ اسے صنعتی پھیلاؤ کی فضا نہیں مل رہی جہاں اس کا ہنر جی بھر کر سانس لے سکے۔ ایک ارب 81کروڑ ڈالر کی بیرونی فنڈنگ کے دریا میں مزدور کی کشتی بہتی چلی جا رہی ہے۔ اردگرد اونچی اونچی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ مزدور، کاریگر، ہنرمند، پڑھا لکھا نوجوان سب حیران وپریشان ہیں کہ ہم کب تک بیرونی سامان کے خریدار رہیں گے۔ بیرونی فنڈنگ کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے، قرض کا بوجھ ہم پر بڑھتا چلا جائے گا اور ہم مقروض رہ رہے ہیں، حالانکہ اربوں ڈالر کا قرض ہی اتار رہے ہیں۔ رواں مالی سال بھی 23ارب ڈالر کا قرض اتارنا ہے۔
کارخانے دار اپنے کارخانے بند کرکے بیرون ملک جارہا ہے۔ رات کی تاریکی میں شاید بوسیدہ کارخانے کی دیوار سے آواز آتی ہے کہ میں اپنے دروازے مزدور کے لیے کھولنا چاہتا ہوں، کاریگروں، ہنرمندوں، پڑھے لکھے بابوؤں سے آباد کرنا چاہتا ہوں، مگر افسوس بجلی کی قیمت بڑھتی چلی جا رہی ہے، گیس مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ پانی کے ٹینکر والے منہ مانگے دام طلب کرکے چلے جا رہے ہیں۔ مل مالک کہتا ہے میں مزدور کے لیے دروازے کھولنا چاہتا ہوں مگر آئی ایم ایف کی شرائط کے آگے نہیں ٹھہرسکتا۔ میں ہنرمندوں کو روزگار پر رکھ سکتا ہوں اور پہلے رکھتا بھی رہا ہوں لیکن اب حکومت کی پالیسی بدل گئی ہے، قرض بڑھ رہا ہے، غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ خواب تو کارخانے دار کے بھی بہت ہیں منافع کمانے کے، کارخانہ چلانے کے لیکن وہ کچھ شرطوں، کچھ پابندیوں، کچھ ناروا سلوک کی بنا پر نالاں ہے۔ کچھ زورآور آکر کہتے یں کہ ہمیں ہمارا حصہ دو، کچھ کہتے ہیں ہم نے تمہیں سہولت دی تو ہمیں کیا ملے گا؟ بہت سے پراجیکٹ اس لیے فیل بھی ہورہے ہیں کہ ابھی پراجیکٹ کی رقم ملی، ان کا حصہ الگ، اب جو بچا اس سے مزید حصے شامل ہوکر پراجیکٹ کے لیے کم رقم جب ملے گی تو جیسے تیسے کام ہوگا۔ پھر پل بھی بن کر جلد ٹوٹیں گے، موٹروے بھی جلد بہہ جائے گا، شاہراہ بھی کہیں سے بہہ جائے گی، روڈ پر بھی کھڈے پڑیں گے۔
کسان اپنی جگہ پریشان ہے، بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں پر آبادکاری ہوسکتی ہے۔ نہری نظام قائم کرتے لیکن رقم اتنی نہیں کہ ایسا کیا جائے۔ کئی علاقے ریگستان تھے جنہیں 1960ء کے بعد آباد کیا گیا، کچھ نہریں نکالی گئیں، کچھ کنویں کھودے گئے، کچھ ٹیوب ویل نے کمال دکھایا اور جب سیم وتھور بڑھ گئی تو سفیدے کے درخت لگاکر اسے قابو کیا گیا۔ لیکن اب توازن بگڑ چکا ہے کیونکہ سفیدے کے درخت لگا کر اسے فروخت کرنے کا کاروبار بڑھ گیا ہے جس سے چنے کی فصل متاثر ہورہی ہے۔ یہ حقیقت بیان کر رہے تھے نورپور تھل کے قصبہ چن کے زمیندار فہیم راجپوت جن کا کہنا تھا کہ اس بگڑے توازن کو درست کردیا جائے تاکہ چنے کی فصل اچھی ہوسکے۔ اس کے علاہ قصبہ چن میں باجرہ اور گندم کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ریگستان اور ریتلے علاقے میں سیم وتھور اور دیگر زرعی مسائل کے حل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا سائنسی اور جدید ترین حل تلاش کیا جائے۔ بیرون ملک جاکر دیکھیں زراعت نے بے انتہا ترقی کرلی ہے۔ تقریباً ہر فصل پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار کے مقابلے میں صنعتی ممالک دگنی سے تگنی پیداوار اٹھا رہے ہیں اور ہم گندم ہو یا چاول ہو یا چنا یا دالیں ہر پیداوار کے حصول میں ان ملکوں سے بہت پیچھے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کریں، اس سے خوراک کے معاملے میں خودکفالت حاصل کرسکتے ہیں اور پھر ملک میں جب خوراک کی قیمت کم ہوگی تو ایسی صورت میں مہنگائی کم ہوگی۔ کیونکہ خوراک پر روزانہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور جب مزدور کو ہنرمند کو روزگار نہیں ملے گا تو ایسی صورت میں ان کے لیے روزانہ خوراک کی خریداری ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ حکومت کی ترجیحات دوسری ہیں۔ وہ چمکتے ہوئے اعداد و شمار کو معیشت کے اشاریے سمجھتی ہے اوراعداد و شمار کی بنیاد پر یہ اشاریے کسی طور پر ملک کی اکثریت غریب آباد کو کبھی بھی مطمئن نہیں کرسکتی۔ غریب کے لیے حکومتی اعداد و شمار کی بجائے اس کا روزمرہ کی خوراک، لباس اور دیگر بہت سی اخراجات کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے جسے حل کرنے میں وہ ہلکان ہوجاتا ہے کیونکہ معاشی حالات اب ملک کی فلاحی معیشت کو اپنے لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ کئی برس گزر چکے معاشی ترقی کے منصوبے پر کم سے کم رقم خرچ ہو رہی ہے، فلاحی معیشت کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ حکومت کسی ایسے منصوبے پر غور کرے کہ غریب موٹرسائیکل، رکشے والوں کو سستا تیل فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے روزگار کا مسئلہ حل کرسکیں۔

