زکوٰة کی ادائی اور تقویٰ کا حصول

اسلام کا تیسرا اہم اور بنیادی رکن ”زکوٰة” ہے جس کے لیے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی اس حوالے سے بھی شدید کوتاہی کا شکار ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے صرف اس کے مادی نقصانات کو بھی لے لیجیے۔

زکوٰة کے حصے کا مال کسی نہ کسی طرح نکلنا ہوتا ہے، آپ اللہ کی رضا کی خاطر دیانت داری سے خود نکال دیں تو خیروبرکت بھی ہو اور مسائل ومشکلات کا سامنا کرنے سے بھی بچے رہیں، لیکن اگر خود سے نہ نکالا جائے تو یہ بہت سے نقصانات کا باعث ہوتا ہے۔اس لیے آپ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیے، اس سے پہلے کہ آپ کو اس کے لیے مجبور ہونا پڑے۔ اسے خوب اچھی طرح سیکھ کر پھر عمل کرنا چاہیے، چنانچہ یہ مسائل کہ (1) وہ اصحاب جن پر حکم زکوٰة کا اطلاق ہوگا۔ (2)اس کی مقدار اور شرح۔ (3)مدت ملکیت۔ (4)اقسام ملکیت، جن پر زکوٰة لازم ہے۔ (5)استثناء املاک جن پر زکوٰة لاگو نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب جزوی تفصیلات اور زکوٰة سے متعلق دیگر جملہ امور ہم مسلمانوں نے صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے جو نسل درنسل ہم تک منتقل ہوئے۔ اس کے سب سے ابتدائی مخاطب صحابہ کرام تھے اور وہ اس پر اس قدر شدت سے عمل پیرا نظر آتے ہیں کہ جب آپ کے اس جہاں سے تشریف لے جانے کے بعد کچھ لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو باوجود اکثر کبار صحابہ کے نرمی برتنے کے مشورے کے، حضرت ابوبکر صدیق نے سخت رویہ اختیار کیا اور ایسے لوگوں سے جہاد کرکے ثابت کردیا کہ نماز اور زکوٰة میں فرق کرنے والا مسلم نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید کے اس حکم اور دین کے اہم ترین رکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کوئی رعایت نہیں کی، جبکہ متعدد قبائل اسلام لانے کے لیے راضی تھے، لیکن زکوٰة میں رعایت کے متمنی تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو زکوٰة سے رعایت نہ دی۔

اسی طرح خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اطاعت اللہ اور اطاعت رسول میں زکوٰة کی مقدار اور وصولی میں کوئی رعایت نہ کی بلکہ ایسے منکرین زکوٰة سے جنگ کی جو بعد میں ایک صحیح، درست اور دین کو تقویت دینے والا فیصلہ ثابت ہوا۔ بہرحال! ہر صاحب نصاب مسلمان کو زکوٰة کا حصہ ضرور نکالنا چاہیے۔ اگر صرف اس ایک حکم ہی پر صحیح معنوں میںعمل کرلیا جائے تو عالم اسلام بلکہ دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
زکوٰة اور رمضان کا تعلق کچھ یوں ہے کہ زکوٰة مالی تطہیر کا ایک ذریعہ ہے جس طرح رمضان کے روزے نفس کی تطہیر کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔ دونوں کا مقصد تقوی کا حصول ہے جوکہ ماہ رمضان کا اصل مقصود ہے۔ لعلکم تتقون فرماکر اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا تقویٰ کا حکم دیا ہے۔

دنیا میں ”کچھ لو کچھ دو” کی بنیاد پر کام چلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تقویٰ کا حکم دیا کہ تمام ظاہری و باطنی گناہ چھوڑ دو۔ اس حکم پرعمل پیرا ہونے پر ہمیں کیا ملے گا؟ تقویٰ پر اللہ تعالیٰ کیسے دینی و دنیاوی انعامات سے نوازتے ہیں؟ اس بارے میں مشائخ و اکابر حضرات نے تقویٰ کے دس انعامات شمار فرمائے ہیں۔ (1) کام میں آسانی: قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”وَمَنْ یَّتَقِ اللّہَ یَجْعلْ لَّہ مِنْ أَمْرِہ یُسْرًا’… ”اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو ہم تمہارے سب کام آسان کردیں گے۔” ذرا سوچیے! یہ نعمت نہیں ہے کہ انسان کے سب کام آسان ہوجائیںگے۔ (2) مصائب سے چھٹکارا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہ مَخْرَجًا.” کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مصیبت سے جلد نکال دیں گے اس کو مصائب سے نکلنے کا راستہ ملے گا۔ (3) اللہ تعالی کا وعدہ ہے: ”وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ”… ”جو تقویٰ اختیار کرے گا اللہ تعالی اس کو ایسے راستہ سے روزی دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔” (4) نورِ فارق: تقویٰ پر اللہ تعالی ایک ایسا نور عطا فرماتے ہیں، جس سے برائی، بھلائی کی تمیز رہتی ہے جیسا کہ سورۂ انفال کی آیت میں فرمایا گیا ہے: ”یَا أَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِن تَتَّقُو االلّٰہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا”… ”اے ایمان والو! اگر تم ڈرتے رہو گے اللہ سے تو کردے گا تم میں فیصلہ۔

(5) نورِ سکینہ: صاحب ِتقویٰ کو اللہ تعالیٰ نورِ سکینہ عطا فرماتے ہیں۔ اس کی حفاظت کریں گے اور گناہ سے بچالیں گے۔ گناہ میں اس کو ایسی موت نظر آئے گی کہ گناہ کے ہزار مواقع ہوں گے وہ یہی کہے گا کہ بھائی تقویٰ ہی میں فائدہ ہے، گناہ میں تو بہت مصیبت نظر آرہی ہے۔ (6) پُر لطف زندگی: اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور تقویٰ پر وعدہ ہے کہ ہم تو ضرور ضرور بالطف زندگی دیں گے۔ ہماری نالائقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اتنے اہتمام سے ذکر فرمایا ہے۔ (7) عزت و احترام: سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ أَتْقَاکُمْ”… ”درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔” ایک اعلیٰ خاندان کا شخص اگر گناہ گار ہے اور ایک گھٹیا خاندان کا شخص متقی ہے تو یقینایہ دوسرا ہی افضل ہے، کیونکہ یہ صاحب تقویٰ ہے۔ متقی شخص دنیا میں بھی معزز ہے اور آخرت تو ہے ہی متقین کے لیے۔ (8) اللہ کی ولایت کا تاج: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم متقی رہو گے تو ہم تمہاری غلامی کے سر پر اپنی دوستی کا تاج رکھ دیں گے۔

(9) گناہوں کا کفارہ: تقویٰ کا ایک انعام گناہوں کا کفارہ ہے۔ تقویٰ سے ایسے اعمالِ صالحہ کی تو فیق ہو جاتی ہے جو اس کی سب لغزشوں پر غالب آجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”وَمَنْ یَّتَقِ اللّٰہَ یُکَّفِرْ عَنْہ سَیِّئَاتِہ.”… ”جو کوئی اللہ سے ڈر ے گا تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا۔” (10) آخرت میں مغفرت: تقویٰ کے انعامات میں سے ایک انعام آخرت میں مغفرت اور گناہوں کی معافی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیسے حاصل ہو؟ تقویٰ اس طرح حاصل ہوگا کہ جیسے یہ ایک ماہ رمضان گزارا جاتا ہے، باقی زندگی اسی نمونے پر گزارلی جائے۔ جیسے رمضان کے چند دن بعد ختم ہو جانے والا ہے، ایسے ہی عمر بھی تھوڑی سی ہے، یعنی پچاس ساٹھ سال ختم ہوجانے والی تھوڑی سی مدت۔ اس کو رمضان کے ایک ماہ پر قیاس کرلیں جو ہماری اس تھوڑی عمر کو تقویٰ والی زندگی بنادے گا اور اللہ اس کی مدد کرے گا۔