شامی صدر احمدالشرع نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے شام میں تقسیم کے منصوبہ سازوں کے سارے خواب چکنا چور کردیے۔ شام کے شمال مشرق اور مشرقی صوبوں میں سرگرم کرد ڈیموکریٹک فورسز بالآخر شامی فورسز میں مکمل طور پر ضم ہونے پر راضی ہوگئی ہیں۔ پیر کے روز شام کو اس معاہدے پر شامی صدر احمدالشرع اور کرد ڈیموکریٹک فورسز کے سربراہ جنرل مظلوم عبدی نے دستخط کردیے۔
معاہدے کے آٹھ نکات ہیں جن میں اہم نکات یہ ہیں کہ تمام شامی شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی جائے گی تاکہ وہ سیاسی عمل اور ریاستی اداروں میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر، مذہبی یا نسلی پس منظر سے قطع نظر، نمائندگی اور شرکت کر سکیں۔کرد برادری شامی ریاست کا ایک قدیم اور اصل حصہ ہے اور شامی ریاست اس کے شہری حقوق اور تمام آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔شام کے تمام علاقوں میں فوری جنگ بندی کی جائے گی۔شمال مشرقی شام کے تمام سول اور عسکری اداروں کو شامی ریاست کے نظم و نسق میں ضم کیا جائے گا، جن میں سرحدی گزرگاہیں، ہوائی اڈے اور تیل و گیس کے ذخائر بھی شامل ہیں۔ تمام بے گھر شامی شہریوں کی اپنے شہروں اور دیہاتوں میں واپسی کی ضمانت دی جائے گی اور ان کی حفاظت کو شامی ریاست یقینی بنائے گی۔شامی ریاست کی ہر اُس قوت کے خلاف جنگ میں حمایت کی جائے گی جو بشار الاسد کے باقیات یا کسی بھی ایسی طاقت کی شکل میں ریاست کی سلامتی اور وحدت کے لیے خطرہ بنے۔تقسیم کی کوششوں، نفرت انگیز تقاریر اور شامی معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان فتنہ پھیلانے کی سازشوں کو مسترد کیا جائے گا۔عملدرآمدی کمیٹیاں اس معاہدے کو سال کے اختتام تک نافذ کرنے کے لیے کام کریں گی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گی۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ دسمبر 2024ء میں شام میں ہیئة تحریر الشام کی قیادت میں شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہوگئی اور انقلابیوں کی حکومت آگئی، تو ملٹری آپریشنز مینجمنٹ کے کمانڈر ان چیف احمدالشرع نے سب سے پہلے امن اور صلح کا پیغام کردوں کو بھیجا۔جنوری میں کردوں کو شامی فورسز میں ضم ہونے کی دعوت دی گئی۔ جنوری کے شروع میں کرد وفد نے احمد الشرع کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی تاہم اس ملاقات میں کرد گروپ کی جانب سے شامل ہونے کے لئے کچھ ایسی شرائط رکھی گئی تھیںجس پر یہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔ جنوری کے آخر میں جرمنی اور فرانس کے سفیروں نے دمشق کا دورہ کیا تو احمد الشرع کے ساتھ ملاقات میں کردوں کے حوالے سے بات چیت کی اور ان کے تحفظ کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ بعدازاں کردوں کے دمشق انتظامیہ کے باقاعدہ مذاکرات بھی ہوگئے لیکن ضم ہونے کی بات پر کرد راضی نہ ہوئے۔ اس دوران شام میں ساحلی علاقوں اور جنوب میں سویداءاوردرعا میں کچھ مظاہرے شروع ہوئے۔ کچھ مسلح گروپس بھی میدان میں آگئے جس سے شامی حکومت کے خلاف سازشوں کو اہمیت ملنے لگی۔ تاہم 6 مارچ کو ساحلی ریجن میں بشارالاسد کی باقیات کی جانب سے اٹھنے والی بغاوت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ شامی حکومتی فورسز نے ساحل میں فیصلہ کن آپریشن کرکے باغیوں کو پسپا کیا۔ ان سے اسلحہ لے لیا اور ان پر تمام راستے بند کردیے، جس کے دوروز بعد ادلب میں بھی کرد علاقوں میں آپریشن ہوا۔ اس آپریشن نے جہاں شامی حکومت کی رٹ قائم کرنے میں مدد کی وہیں کردوں سمیت دیگر مسلح گروپوں کی حوصلہ شکنی کی۔

شامی کردوں کے حکومت میں ضم ہونے کے اعلان سے دو ہفتے قبل ترکی میں قید کردستان ورکرز پارٹی کے سربراہ عبداللہ اوجلان نے بھی ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد شامی کردوں نے بھی بالآخر حکومت میں ضم ہونے پر رضا مندی ظاہر کی۔ شام میں تین ملین کے قریب کرد رہائش پذیر ہیں۔ شام کے مشرق اور شمال مشرق میں تین صوبوں دیرالزور ،الرقہ اور الحسکہ میں کرد گروپوں نے 2015 ء سے پہلے سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کے نام پر ایک ادارہ قائم کررکھا ہوا تھا۔ یہ ادارہ 21 جنوری 2014ء سے قائم تھا۔ اس سے قبل سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کی جگہ ویسٹ کردستان کونسل قائم تھی جسے تحلیل کرکے سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔اس کا ایگریمنٹ بھی ہے جسے آئین کی حیثیت حاصل ہے۔ کرد سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کو کرد زبان میں روج آفا کہاجاتاہے، جو کردوں کے ایک الگ وطن کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگرچہ اس معاہدے میں کردوں کے علاوہ عرب اور سریانی سمیت کچھ دیگر کمیونٹیاں بھی شامل ہیں تاہم ان کی نمائندگی کچھ زیادہ موثر نہیں ہے۔
شام کی سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کو شام کے معزول صدر بشار الاسد کی حمایت حاصل رہی ۔مارچ 2011ء سے شامی تحریک کے آغاز سے ہی اسدی انتظامیہ نے کرد مینجمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے اور انہیں شامی تحریک سے دور رکھنے کے لیے کئی اقدامات کئے۔ بشارالاسد نے اس دوران 3 لاکھ کردوں کو شامی شہریت بھی دے دی تاکہ انہیں عوامی تحریک سے دور اور الگ رکھا جائے، جن علاقوں کا کنٹرول مشکل ہورہا تھا انہیں کردوں کے حوالے کردیا۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت سے لیکر اب تک شام کے 28 فیصد سے زائد علاقہ کردوں کے کنٹرول میں ہے۔ یہ شام کے وہ علاقے ہیں جہاں تیل کے ذخائر ہیں۔ کردوں نے ان علاقوں میں پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے نام سے عسکری گروپوں کی تشکیل دی۔ ان گروپوں نے شامی اپوزیشن گروپوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ شروع کیا۔ کرد جن گروپوں کے خلاف لڑے ہیں ان میں شامی صدر احمد الشرع کی تحلیل شدہ تنظیم ہیئة تحریر الشام کا نام سرفہرست ہے۔ 2015ءمیں کرد سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ نے پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے بعد کردڈیموکریٹک فورسز کی بنیاد رکھی جس کا کوڈ نام قسد ہے اور دمشق حکومت کے ساتھ معاہدہ اسی قسد نے کیاہے۔
کرد عسکری گروپوں نے شام میں 2015ء کے بعد زیادہ پیش قدمی کی اور متعدد اہم علاقے کنٹرول میں لے لیے۔ کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اس وقت بھی تیل کے بڑے کنویں موجودہیں جن میں شام کے تین بڑے آئیل فیلڈز سویدیہ، رمیلان اور العمر سمیت 13 کنویں شامل ہیں۔ شروع میں شامی کردوں کو روس کی مدد حاصل رہی تاہم بعد میں داعش کے خلاف آپریشن میں کرد امریکا کے اہم ترین اتحادی بنے اور امریکا نے انہیں بھرپور اسلحہ فراہم کیا۔ داعش کے خلاف لڑتے ہوئے کردوں نے جرابلس پر کنٹرول کی کوشش کی۔ 2019ء میں کرد گروپ داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تاہم کردوں نے کچھ ایسے اقدامات کئے جن سے علیحدگی پسند سرگرمیوں کا تاثر ملنے لگا۔ کرد علاقوں سے عربوں کی جبری بے دخلی کو بھی شام میں بہت تشویش کے ساتھ دیکھا جارہاہے، جبکہ کردوں کے ترکی میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات کے باعث بھی انہیں خطرہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے ان کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ ترکی نے 2016ء سے 19ءتک کردوں کے خلاف شامی علاقے میں تین آپریشن کئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق پیر کو دمشق حکومت کے ساتھ ہونے والے کرد معاہدے پر شام میں بغاوت کے لیے کوشاں علاقائی ممالک سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ شام میں چھ مارچ کو ساحلی صوبوں اللاذقیہ اور طرطوس میں بشار الاسد کی باقیات کی جانب سے شامی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کامیابی کے ساتھ کچلنے سے شامی حکومت کی رٹ قائم ہونے لگی ہے۔ اس آپریشن کے بعد جہاں اسرائیل کے گرم دم بیانات کا سلسلہ رک گیا ہے وہیں شمال مشرقی شام کے تین صوبوں میں سرگرم کرد ڈیموکریٹک فورسز (قسد) نے بھی بالآخر وہ مطالبہ مان لیا جو اُن سے شروع دن سے ہورہا تھا۔
خیال رہے کہ دو روز قبل کردوں کے خلاف حلب کے شیخ مقصود ٹاون میں بھی فوجی آپریشن ہوا تھا جس میں کردوں کو شکست ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں مظلوم عبدی نے ایک انٹرویو میں اسرائیل کی مدد قبول کرنے کی بات کی تھی۔ نیز کردوں میں قندیل گروپ کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ساحل ریجن میں آپریشن کے دوران کچھ دیگر قوتوں کے ساتھ کرد ڈیموکریٹک فورسز کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ملے ہیں۔ چونکہ شامی حکومت ساحل ریجن کی بغاوت اور بڑے منصوبے کو انتہائی آسانی کے ساتھ کچلنے میں کامیاب ہوگئی ہے، نہ صرف یہ بلکہ یورپی یونین سمیت کسی ملک نے کوئی خاص مداخلت بھی نہیں کی۔ جس پر شام میں بغاوت کے لیے سرگرم گروہوں کو شدید مایوسی ہوگئی ہے اور اس کا نتیجہ کرد ڈیموکریٹک فورسز کی شامی فورسز میں ضم ہونے پر رضامندی معاہدے کی شکل میں نکلا۔